'کورونا کا ہنگامی مرحلہ ابھی ختم نہیں ہوا'، ڈبلیو ایچ او
3 دسمبر 2022
عالمی ادارہ صحت کے کا کہنا ہے کہ اس کے اندازوں کے مطابق 90 فیصد لوگوں میں کووڈ 19 کے خلاف مزاحمت پیدا ہو چکی ہے۔ تاہم ادارے نے اس کی نئی اقسام کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انفیکشن بڑھتا جا رہا ہے۔
تصویر: Kevin Frayer/Getty Images
اشتہار
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دو دسمبر جمعے کے روز بتایا کہ اس کے اندازوں کے مطابق دنیا کی تقریبا 90 فیصد آبادی اب کووڈ 19 کے خلاف کچھ حد تک قوت مدافعت پیدا کر چکی ہے۔ تاہم ادارے نے متنبہ کیا کہ اس وبا کے تئیں ذرا سی بھی کوتاہی اس کی نئی شکلوں کے ارتقاء کے دروازے بھی کھول سکتی ہے۔
ادارے کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانوم گیبریئس نے جنیوا میں کہا، "ڈبلیو ایچ او کا تخمینہ ہے کہ دنیا کی کم از کم 90 فیصد آبادی میں اب پہلے سے ہونے والے انفیکشن یا ویکسینیشن کی وجہ سے ایس اے آر ایس - سی او وی-2 کے خلاف کسی حد تک قوت مدافعت پیدا ہو گئی ہے۔"
SARS-CoV-2 ہی وہ وائرس ہے جو کووڈ انیس کا سبب بنتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: "ہم یہ کہنے کے قابل ہونے کے بہت قریب ہیں کہ وبائی مرض کا ہنگامی مرحلہ ختم ہو گیا، تاہم ابھی تک ہم وہاں پہنچے نہیں ہیں۔ اس کی نگرانی، جانچ اور ویکسینیشن میں ہونے والی کوتاہی نئی خطرناک ویریئنٹ کے لیے بہترین حالات پیدا کر سکتی ہے، جو اموات کا بھی سبب بن سکتا ہے۔"
ٹیڈروس کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے ہی خطرناک اومیکرون ویریئنٹ کا ایک سال مکمل ہوا ہے، جب گزشتہ برس اس کو نام دیا گیا تھا۔ اس نئے ویریئنٹ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا اس وقت بھی انتہائی متعدی وائرس کی کم از کم 500 دیگر اومیکرون کی قسمیں گردش میں ہیں۔
برطانیہ میں ایک بار پھر سے انفیکشن کی تعداد میں اضافے اور چین میں ریکارڈ بلندیوں پر پہنچنے کے تناظر میں، اب عالمی ادارہ صحت، دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے ایسے کمزور افراد کے تحفظ پر توجہ مرکوز کریں، جو 60 برس سے زیادہ عمر کے ہیں یا پھر جو پہلے سے ہی صحت کے دیگر مسائل سے دو چار ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس نے سن 2019 میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد سے تقریباً 640 ملین کیسز میں سے 66 لاکھ اموات کا باضابطہ طور پر اندراج کیا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اصل ہلاکتوں کی تعداد کی عکاسی نہیں کرتیتصویر: Carsten Koall/dpa/picture alliance
گزشتہ ہفتے ہی ساڑھے آٹھ ہزار سے زیادہ افراد کووڈ انیس کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اس بارے میں ٹیڈروس کا کہنا تھا، "وبا کے تین برس بعد اب یہ قطعی قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اب ہمارے پاس انفیکشن کو روکنے اور جان بچانے کے لیے بہت سے آلات موجود ہیں۔"
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ اس نے سن 2019 میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز کے بعد سے تقریباً 640 ملین کیسز میں سے 66 لاکھ اموات کا باضابطہ طور پر اندراج کیا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اصل ہلاکتوں کی تعداد کی عکاسی نہیں کرتی کیونکہ بڑی تعداد میں اموات رپورٹ ہی نہیں کی گئیں۔
چینی قوانین میں نرمی کا خیر مقدم
چین نے حال ہی میں اس بات کا اشارہ کیا کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جو سخت اصول و ضوابط نافذ ہیں، اس میں وہ کمی کرنے جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ چین میں اس حوالے سے نافذ سخت قوانین کے خلاف عوام احتجاجی مظاہروں کے لیے سڑکوں پر نکلنے لگی تھی۔
جمعے کے روز یورپی یونین کے صدر شارل مشیل کے ساتھ بات کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین میں زیادہ تر انفیکشن کے کیسز اومیکرون کے ہلکے قسم کے ہیں اور اسی لیے نرمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پابندیوں میں نرمی سے، "زیادہ کشادگی کا راستہ کھلتا ہے، جو ہم بعض علاقوں میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔"
ہنگامی حالات سے متعلق ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ ادارہ "یہ جان کر خوش ہوا کہ چینی حکام اپنی موجودہ حکمت عملیوں کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ یہ کنٹرول میکانزم اور ان کمیونٹیز کی زندگیوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی بات ہے، جو ملک میں کووڈ کے خلاف سخت زیرو پالیسی کی وجہ سے، تکلیف کا سامنا کرتے رہے ہیں۔
ص ز/ ع ب (اے ایف پی، روئٹرز)
کووڈ کے دوران والدین کو کھو دینے والے بچے
امریکا میں کووڈ انیس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتیں دس لاکھ سے بڑھ گئی ہیں۔ اس وبا کے دوران ہزاروں بچے اپنے والدین یا کم از کم ماں باپ میں سے کسی ایک سے محروم ہو گئے ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’افسوس ناک ترین واقعہ‘
چودہ سالہ جولیئس گارزا اپنے والد کے دکھ کو کمپیوٹر گیمز کھیل کر بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے والد دسمبر سن 2020 میں کووڈ انیس کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے۔ وہ اور اس کا بھائی اس دن کو یاد کرتے ہیں جب سن 2015 میں ان دونوں کو مارگریٹ اور ڈیوڈ نے اپنی کفالت میں لیا تھا۔ جولیئس کے مطابق ڈیوڈ کی موت اس کی زندگی کا انتہائی دکھ بھرا وقت تھا اور شاید وہ اس کو کبھی بھی بھول نہیں سکے گی۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
والد کی یاد میں
جولیئس گارزا کی عمر چودہ اور ان کا بھائی عیدان گارزا کی عمر بارہ سال ہے۔ وہ اپنے والد کو ہر مہینے کی تیس تاریخ کو خاص طور پر اپنی دعا میں یاد کرتے ہیں۔ مارگریٹ کے شوہر مرحوم ڈیوڈ کی سالگرہ تیس اپریل کو ہوتی ہے اور وہ کووڈ انیس کی وجہ سے تیس دسمبر سن 2020 کو موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
صورت حال سمجھنے کی کوشش
مارگریٹ گارزا اور ان کا بیٹا جولیئس تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ڈیوڈ اور ان کے بھائی کے اصل والد کو سوتیلی بیٹی کا جنسی استحصال کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ڈیوڈ ان کے کفیل بن گئے تھے۔ اب جولیئس اس کوشش میں ہے کہ وہ ڈیوڈ کی موت کو سمجھ پائے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ناقابلِ تلافی نقصان
جوسٹس میکگوون تیرہ سال کی ہیں اور وہ بھی اپنے والد کو کووڈ انیس کی وبا میں کھو چکی ہیں۔ جوسٹس کے والد مئی سن 2020 میں بیماری سے سنبھل نہیں سکے تھے۔ وہ اپنے والد کی سالگرہ کے دن سیڑھیوں میں بیٹھ کر انہیں یاد کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں ایک ملین افراد ہلاک ہوئے یعنی کھانے کی میز پر ایک ملین خالی کرسیاں، یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’وہ وہی کرتی ہے جو والد کیا کرتے تھے‘
جوسٹس کی والدہ ڈاکٹر سینڈرا میکگووں واٹس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے معمولات کو سنبھالے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے والد کے انداز کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ گزشتہ برس گھر میں اُگی جھاڑیوں کو اس نے باپ کا ٹرمر اٹھا کر کاٹا تھا۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ایک مشترکہ روایت
جوسٹس میکگوون گھر میں اوون میں سے بسکٹوں کو باہر نکال رہی ہے، ایسا وہ اپنے مرحوم باپ کے سامنے کیا کرتی تھی۔ زندگی کئی بچوں کے لیے تبدیل ہو کر رہ گئی ہے لیکن وہ جذباتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ہزاروں بچوں کے والدین میں سے ایک اب زندہ نہیں
ابھی تک ان امریکی بچوں کی فلاح و بہبود کسی حکومتی پروگرام میں شامل نہیں، جن کے والدین میں سے ایک وبا کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔ محققین کے مطابق امریکا میں دو لاکھ تیرہ ہزار سے زائد ایسے بچے ہیں جن کے والدین میں سے ایک کووڈ انیس کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے ہیں
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
بادلوں کو چھونے جیسا
عیدان گارزا اپنے باپ کی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ کر ان کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ڈیوڈ ایک سیدھے اصولوں والا انسان تھا۔ عیدان کے مطابق ڈیوڈ ایک پرجوش اور نرم دل انسان تھے اور جب بھی وہ ان کے گلے لگتا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بادلوں کو چھو رہا ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’ہمارا حالات دوسروں کی طرح نہیں ہیں‘
عیدان، جولیئس اور مارگریٹ ڈیوڈ کی تصویر کی تصویر کے سامنے اکھٹے ہیں۔ یہاں وہ برتن بھی رکھا ہوا ہے، جس میں ڈیوڈ کی راکھ ہے۔ مارگریٹ اپنے شوہر کی موت کے بعد اپنے بچوں کی نفسیاتی کاؤنسلنگ بھی کروا چکی ہے۔ عیدان اور جولیئس کا کہنا ہے کہ ان کا نارمل دوسرے خاندانوں جیسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اپنا ایک عزیز اس وبا میں کھو چکے ہیں۔