اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک باضابطہ سرکلر میں ملک بھر کے تمام بینکوں کو کہا ہے کہ وہ کورونا کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر 14 دن کے لیے قرنطینہ کیے گئے کرنسی نوٹوں کو اب استعمال کر سکتے ہیں۔
اشتہار
اسٹیٹ بینک نے مارچ کے تیسرے ہفتے میں ملک بھر کے بنکوں کو کرنسی نوٹوں کے ذریعے صارفین کو کورونا وائرس کی منتقلی سے بچانے کے لیے تفصیلی ہدایات جاری کی تھیں۔ ان ہدایات کے مطابق صارفین کی طرف سے جمع کروائے جانے والے کرنسی نوٹوں کا دو ہفتوں تک کے لیے دوبارہ اجراء روک دیا گیا تھا۔ اسٹیٹ بنک کی طرف سے ہسپتالوں اور میڈیکل کلینکس کے اکاؤنٹس رکھنے والے بنکوں سے بھی کہا گیا تھا کہ وہاں سے آنے والے کرنسی نوٹوں کو جراثیموں سے پاک کر کے ، الگ بنڈلوں میں باندھ کر چودہ دنوں کے لیے علیحدہ رکھ دیا جائے اور اس رقم کی مالیت سے مرکزی بنک کو آ گاہ کیا جائے تاکہ اس کے برابر رقم بنکوں کو اسٹیٹ بنک کی طرف سے فراہم کی جا سکے۔
عالمی ادارہ صحت نے سخت اور ٹھوس سطح کے مقابلے میں مسام دار سطح پر وائرس کی زندگی کے مختصر ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اس لیے مرکزی بنک کے مطابق ان کرنسی نوٹوں کا چودہ دنوں کے قرنطینہ کے بعد مارکیٹ میں لایا جانا احتیاطی تقاضوں کے مطابق مناسب ہے۔
ایک مقامی بنک میں کام کرنے والے شہزاد نامی ایک نوجوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہر بینک کی طرف سے کیشیئرز کو ہینڈ سینی ٹائیزر اور جراثیم کش محلول فراہم کیا گیا ہے اور کیشیئرز کو بار بار ہاتھ دھونے کی ہدایات ہیں۔
پاکستان میں طبی امور کے ماہر ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں زیادہ تر کاروبار ڈیجیٹل ٹرانزکشنز کی بجائے روپوں کے لین دین سے ہوتا ہے۔ ان کے مطابق کرنسی نوٹ تیزی سے مختلف ہاتھوں میں گردش کرتے ہیں اس لیے یہ وائرس پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں: ''اس سلسلے میں ان لوگوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے جو نوٹوں کی گنتی کے دوران بار بار اپنی زبان کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ‘‘
ڈاکٹر عاصم کے مطابق اس مسئلے کا دیرپا حل ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال ہے۔ ان کے بقول تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کورونا کے دنوں میں کارڈ سے ادائیگی کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے: ''بہت سے لوگ اب بینکوں میں جانے کی بجائے بینکوں کی ایپ استعمال کر کے رقم ٹرانسفر اور بل ادا کرنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے مطابق اگر کرنسی نوٹوں کا استعمال ناگزیر اور زیادہ ہو تو پھر ہاتھوں پر پلاسٹک بیگ کا استعمال کرنا مناسب ہوگا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کورونا بحران کے دوران پاکستان میں کرنسی نوٹوں کو جراثیموں سے پاک کرنے کے لیے جراثیم کش سفوف، روشی اور حرارت پیدا کرنے والی مشینوں کو استعمال کیا جا تا رہا ہے۔ بعض لوگ کرنسی نوٹوں کو استری کرکے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
عید کے موقع پر نئے نوٹ جاری نہیں ہوں گے
دوسری طرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سالہاسال سے جاری اپنی روایت کے بر خلاف اس سال عید الفطر پر نئے کرنسی نوٹ جاری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس عید پرعوام، اسٹیٹ بینک کے موجودہ اور سابق ملازمین کو نئے کرنسی نوٹ جاری نہیں کیے جائیں گے۔ اسٹیٹ بینک کی کووِڈ 19 کمیٹی کی طرف سے کیے جانے والے اس فیصلے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ بینکوں میں سماجی فاصلہ رکھنے اور کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیا گیا لیکن پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں کئی مقامات پر لوگ نئے نوٹ فروخت کرتے آ رہے ہیں۔
مال روڈ کے قریب نئے نوٹ فروخت کرنے والے محمد جمیل نے بتایا کہ اسٹیٹ بنک کو نئے نوٹوں کے اجرا پر پابندی لگانے کی بجائے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ان کا اجرا کرنا چاہیے تھا۔ ان کے بقول ایک تو لوگوں کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے، دوسرے یہ بات بھی دھیان میں رہنی چاہیے کہ اس کاروبار کے ساتھ بھی بہت سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دس روپے والے نئے نوٹوں کا ایک پیکٹ جس کی اصل مالیت ایک ہزار روپے ہوتی ہے اور یہ عام طور پر بارہ تیرہ سو روپے میں ملتا رہا ہے آج کل قلت کی وجہ سے یہ پیکٹ پندرہ سو روپے تک مل رہا ہے۔
پاکستان کرنسی ایکسچینج کے عزیر احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے پاس بھی لوگ نئے نوٹوں کے حوالے سے پوچھنے آ رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کی کرنسی مارکیٹ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے، فلائیٹس بند ہونے کی وجہ سے باہر سے لوگ عید کے لیے نہیں آ رہے، اس لیے ماضی کے برعکس اس وقت کرنسی مارکیٹ میں صرف ایک چوتھائی گاہک ہیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔