کورونا وائرس کی عالمی وبا کے سائے میں ٹور دی فرانس کا آغاز
29 اگست 2020
ٹور دی فرانس سائیکل ریس کو سائیکلنگ کی غیر اعلانیہ عالمی چیمپیئن شپ سمجھا جاتا ہے۔ رواں برس یہ چیمپیئن شپ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دو ماہ کی تاخیر سے شروع ہوئی ہے۔
اشتہار
سن 2020 کی ٹور دی فرانس ایک ایسے وقت پر شروع ہوئی ہے جب کورونا وائرس کی وبا ایک مرتبہ پھر فرانس میں زور پکڑتی محسوس ہو رہی ہے۔ سائیکلنگ کے اس مقابلے کا بظاہر آغاز تو ہو گیا ہے لیکن بے یقینی نے منتظمین اور تمام کھلاڑیوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
انٹرنیشنل سائیکلنگ یونین کے سربراہ کرِس فرُوم نے تمام ٹیموں کے ایتھلیٹوں کو ہر وقت محتاط رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ وہ زیرو رسک لینے سے بھی دور رہیں۔ ہفتہ انتیس اگست سے ٹور دی فرانس کے پہلے مرحلے کا باضابطہ آغاز فرانس کے جنوب مشرقی ساحلی شہر نیس سے ہوا۔ اس مرحلے یا اسٹیج میں سائیکل سوار 154 کلو میٹر کا فاصلہ طے کریں گے۔
سابقہ پلان کے مطابق اس ریس کا آغاز جون کے مہینے میں ہونا تھا۔ یہ ریس تین ہفتے تک جاری رہے گی۔ اس کا اختتام اکیس ستمبر بروز اتوار پیرس کی مشہور شاہراہ شانزے لیزے پر ہو گا۔ آخری اسٹیج میں سائیکل سواروں کو 122 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہو گا۔
امسالہ ٹور دی فرانس چیمپیئن شپ کووڈ انیس کی وبا کے تناظر میں بہت محتاط اور منفرد ماحول میں شروع ہوئی ہے۔ سائیکل سواروں کے ساتھ روانہ ہونے والی لازمی امدادی اور انتظامی ٹیموں میں وائرس ٹیسٹنگ ٹیم کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو وقفے وقفے سے مقابلے میں شریک رائیڈرز کے ٹیسٹ کرتی رہے گی۔
بائیسکل کی ایجاد اور اس کا دو سو سالہ سفر، چند دلچسپ حقائق
دو سو سال قبل ایک جرمن کارل فان ڈرائس نے دو پہیوں پر چلنے والی ایک ایسی مشین بنائی تھی، جو آگے چل کر آج کی بائیسکل کی بنیاد بنی۔ آج یہ ایجاد دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Scheuber
ایک جرمن ایجاد
کارل فان ڈرائس نے دو پہیوں والی اپنی مشین سن 1817ء میں بنائی تھی۔ اُس نے ’ڈرائیسینے‘ کہلانے والی اس مشین کو ایک سے دوسری جگہ زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پہنچنے کے لیے استعمال کیا۔ تب پیڈل نہیں تھے اور دو پہیوں والی اس مشین کو آگے بڑھانے کے لیے سوار کو اپنے پاؤں سے زمین پیچھے کی جانب دھکیلنا پڑتی تھی۔ 1860ء کے عشرے میں فرانس میں ’ڈرائیسینے‘ کو زیادہ بہتر بنا کر بائیسکل کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp
بائیسکل: آزادی کا احساس
اُنیس ویں صدی میں حقوقِ نسواں کی علمبردار امریکی خاتون سُوزن بی اینتھنی نے، جو ’خواتین کے حقوق کی نپولین‘ بھی کہلاتی تھیں، لکھا تھا: ’’میرے خیال میں دنیا میں خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے سفر میں کسی بھی اور چیز سے زیادہ بائیسکلنگ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ سواری خواتین کو آزادی اور خود اعتمادی کا احساس دیتی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gerten
ایک اختراع سے مزید اختراعات
رائٹ برادران نے پہلا ہوائی جہاز تو بعد میں بنایا، پہلے اُن کی امریکی ریاست اوہائیو کے شہر ڈیٹن میں بائیسکل مرمت کرنے کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ یُوں اوروِل اور وِلبر رائٹ کو ایک اچھا روزگار بھی حاصل تھا اور معاشرے میں ایک باعزت مقام بھی لیکن یہ دکان اُن کے مکینیکل تجربات کے لیے بھی بہت اہم تھی۔ اسی ورکشاپ میں بننے والے رائٹ فلائر نے 1903ء میں زمین سے بلند ہو کر پہلی اڑان بھری تھی۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press
چیمپئنز کی روایت کی بنیاد
1903ء ہی میں ’ٹُور ڈی فرانس‘ کی صورت میں پہلی سائیکل ریس شروع ہوئی۔ اب اس ریس کو دنیا بھر میں سب سے پرانی اور ممتاز سائیکل ریس کا درجہ حاصل ہے۔ ہر سال اس کا رُوٹ تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے قواعد و ضوابط ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں۔ اس شاندار ریس کا اختتام ہمیشہ فرانسیسی دارالحکومت پیرس کی مشہور شاہراہ شانز ایلی زے پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Conservatoire du Patrimoine Sportif
دو پہیوں پر پوری دنیا کا سفر
فریڈ اے برکمور (1912ء تا 2012ء) ایتھنز (یونان) کا ایک مشہور مہم جُو تھا۔ اُس نے 1935ء میں بائیسکل پر پوری دنیا کا سفر کیا تھا اور یورپ، ایشیا اور امریکا میں مجموعی طور پر چالیس ہزار میل (پینسٹھ ہزار کلومیٹر) سے زیادہ سفر کیا تھا۔ ان میں سے پچیس ہزار میل برکمور نے خود بائیسکل چلائی، باقی کا پانیوں پر سفر کشتیوں کے ذریعے تھا۔ اس دوران اُن نے سات مرتبہ اپنی بائیسکل کے ٹائر بدلے۔
تصویر: DW/K.Esterluß
بائیسکلز کا عالمی صدر مقام
ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کو دنیا بھر میں بائیسکلز کا صدر مقام کہا جاتا ہے۔ یہاں مجموعی آبادی کا اندازاً 63 فیصد یعنی کوئی آٹھ لاکھ انسان روزانہ بائیسکل استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح اس شہر میں آمدورفت کے لیے بائیسکل کے استعمال کی شرح بتیس فیصد، کاروں کی شرح بائیس فیصد جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی شرح سولہ فیصد ہے۔ شہر کے مرکزی علاقے میں بائیسکل کے استعمال کی شرح اڑتالیس فیصد تک ہے۔
تصویر: AP
یورپ میں سائیکلنگ
یورپی بائیسکل انڈسٹری کی کنفیڈریشن نے 2016ء کے لیے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن کے مطابق براعظم یورپ میں ہر سال اکیس ملین بائیسکل یا برقی قوت سے چلنے والے بائیسکل فروخت ہوتے ہیں۔ ان میں سے تیرہ ملین وہ ہیں، جو اسی براعظم میں تیار ہوتے ہیں۔ بائیسکل تیار کرنے والی یورپی صنعت سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ستّر ہزار سے زیادہ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/R. De Waal
ایک مسلسل ترقی کرتی صنعت
2015ء میں بائیسکل کی عالمی منڈی کے مالیاتی حجم کا اندازہ 45.1 ارب ڈالر (40.3 ارب یورو) لگایا گیا تھا۔ 2016ء سے لے کر 2024ء تک کے لیے اس صنعت میں نمو کی سالانہ شرح کا اندازہ 3.7 فیصد لگایا گیا تھا۔ اس حساب سے اس صنعت کا مالیاتی حجم اگلے عشرے کے وسط تک 62.4 ارب ڈالر تک پہنچتا نظر آ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
8 تصاویر1 | 8
سائیکل سواروں کو محفوظ رکھنے کے لیے محدود تماشائیوں کو ریس کے مختلف مقامات تک رسائی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پہلی منزل کے اختتامی مقام پر صرف ایک سو افراد ہی سائیکل سواروں کے خیر مقدم کے لیے جمع ہوں گے۔
تین ہفتوں کے دوران اکیس مختلف مراحل کے آغاز اور اختتام کے مقامات پر متعلقہ مقامی انتظامیہ حاضرین کی تعداد کا تعین کرنے کی مجاز ہو گی۔ ویسے بھی موجودہ فرانسیسی حکومت نے کسی بھی عوامی مجمع میں زیادہ سے زیادہ شرکاء کی تعداد پانچ ہزار تک محدود کر رکھی ہے۔ ماضی میں بشمول گزشتہ برس ہر مقام پر ہزاروں افراد جمع ہو کر ٹور دی فرانس کے سائیکل سواروں کو الوداع کہتے تھے یا ان کا خیرمقدم کرتے تھے۔
رواں برس کے لیے منتظمین نے خصوصی انتظامی پلان مرتب کیا ہے۔ ریس ڈائریکٹر کرسٹیان پروڈہوم نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ کسی بھی ٹیم میں دو سائیکل سواروں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر اُس ٹیم کو مقابلے سے خارج کر دیا جائے گا۔ اس ضابطے کی وجہ سے ریس کے شروع ہونے سے قبل ہی بیلجیم کی ایک ٹیم لوٹو کے ایک رائیڈر کا ٹیسٹ مثبت آنے اور دوسرے سائیکل سوار کی مشتبہ ٹیسٹ رپورٹ پر اس ٹیم کو مقابلے میں شریک ہونے سے روک دیا گیا۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کورونا وائرس کی وبا میں اب بھی اتنا زور ہے کہ یہ سائیکلنگ کے اس عالمی شہرت یافتہ مقابلے میں خلل ڈال سکتی ہے۔
ع ح / م م (اے ایف پی)
یورپ میں سائیکلنگ کے دس بہترین رُوٹ
یورپ میں سائیکل سواروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ تقریباﹰ سبھی یورپی ممالک میں سائیکلیں چلانے والوں کے لیے علیحدہ راستے موجود ہیں۔ آئیے یورپ میں سائیکلنگ کے دس بہترین راستوں کی سیر کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/Arco Images/K. Kreder
دسواں نمبر: ڈراوا سائیکلنگ رُوٹ
اٹلی میں جنوبی ٹیرول سے سلووینیہ تک 366 کلومیٹر طویل سائیکل راستہ ہے، جس کا ایک سرا دریائے ڈراوا کے منبع سے جڑا ہے۔ اگلے کچھ برسوں میں اسے دریائے ڈینیوب اور کرویشیا سے گزرنے والے دریائے ڈراوا تک بڑھا دیا جائے گا۔
یہ راستہ چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ سے شروع ہوتا ہے اور دریائے اَیلبے کے کنارے کنارے 1220 کلومیٹر تک آگے بڑھتے ہوئے اسی دریا کے ساتھ ریتلی چٹانوں کے علاقے کرکونوسے جرمن شہروں ڈریسڈن، ماگڈے بُرگ اور ہیمبرگ سے ہوتا ہوا بحیرہ شمالی تک جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/P. Zimmermann
آٹھواں نمبر: کلاؤڈیا آگُسٹا رُوٹ
کلاؤڈیا آگُسٹا رُوٹ نامی یہ سائیکلنگ ٹریک جرمن علاقے ڈوناؤ وؤرتھ سے شروع ہو کر قریب سات سو کلومیٹر دور اطالوی شہر وَینس تک جاتا ہے۔ اس قدیم رومن راستے کے ذریعے سائیکل سوار ایلپس کے پہاڑی سلسلے اور جنوبی ٹیرول کی رَیشن جھیل کو بھی عبور کرتے ہیں۔
یہ راستہ سوئٹزرلینڈ کے علاقے مالویا سے ہو کر جرمن شہر پاساؤ سے بھی گزرتا ہے۔ راستے میں پڑنے والے ایلپس کے اونچے پہاڑیوں کی وجہ سے ٹانگوں کے مضبوط پٹھے درکار ہوتے ہے، تاہم سائیکل سواروں کو نہایت حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔ یہ راستہ جرمن علاقے باویریا سے ہوتا ہوا دریائے اِن (Inn) کے کنارے قصبے مِیوہل ڈورف کے مارکیٹ اسکوائر سے بھی گزرتا ہے۔
تصویر: picture alliance/A. Weigel
چھٹا نمبر: بحر اوقیانوس سے بحیرہء اسود تک
یہ ساڑھے چار ہزار کلومیٹر سے بھی طویل سائیکلنگ رُوٹ بحر اوقیانوس کے کنارے فرانس کی Loire وادی سے شروع ہو کر بحیرہ اسود تک جاتا ہے۔ مشرق اور مغرب کو ملانے والے اس راستے میں یورپی ثقافت اور تاریخ کے شہری نمونوں کے نمائندہ نانت، اورلیاں، بازل، لِنس، بوڈاپسٹ، بلغراد اور بخارسٹ جیسے کئی شہر پڑتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB/W. Thieme
پانچواں نمبر: اَیچ سائیکل رُوٹ
یہ قریب تین سو کلومیٹر طویل راستہ رَیشن سے ویرونا تک دریائے اَیچ کے ساتھ ساتھ جاتا ہے، جو جنوبی ٹیرول کا سب سے لمبا دریا ہے اور بحیرہ آڈریا میں جا کر گرتا ہے۔ کلاؤڈیا آگُسٹا سائیکلنگ ٹریک کے متوازی بنایا گیا یہ رُوٹ بہت ہی خوبصورت ہے۔
تصویر: picture-alliance/U. Bernhart
چوتھا نمبر: بحیرہ شمالی کا ساحلی سائیکل رُوٹ
بحیرہ شمالی کے کنارے کے ساتھ ساتھ چلنے والا یہ راستہ چھ ہزار کلومیٹر طویل ہے، جو جزائر شَیٹ لینڈ سے ناروے میں بَیرگن کے علاقے تک جاتا لے۔ یہ راستہ یورپی سائیکلسٹوں کی فیڈریشن کے نیٹ ورک میں شامل ’یورو وَیلو 12‘ رُوٹ کہلاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/Klein
تیسرا نمبر: جھیل کونسٹانس سائیکل رُوٹ
جھیل کونسٹانس کا سائیکلنگ ٹریک سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سائیکلنگ راستوں میں تیسرے نمبر پر آتا ہے یہ 260 کلومیٹر طویل ہے اور جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اس جھیل کے کناروں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسی لیے سائیکل سوار اس راستے کے وہ مناظر دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں، جو اپنی مثال آپ ہیں۔
تصویر: picture alliance/P. Seeger
دوسرا نمبر: رائن سائیکل رُوٹ
سوئٹزرلینڈ میں دریائے رائن کے منبع سے ڈچ شہر روٹرڈم کے قریب بحیرہ شمالی تک جانے والے اس راستے کو ’یورو وَیلو 15‘ کا نام دیا جاتا ہے، جو 1230 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ راستہ دنیا کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سائیکل ٹریکس میں سے ایک سمجھا جاتاہے۔
تصویر: picture alliance/H. Ossinger
پہلا نمبر: ڈینیوب بائیک پاتھ
یہ جرمنی کا سب سے معروف طویل المسافتی سائیکلنگ ٹریک ہے۔ ڈینیوب بائیک پاتھ ساڑھے اٹھائیس سو کلومیٹر طویل ہے۔ یہ برَیگ کے جرمن علاقے سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے دریائے ڈینیوب جنم لیتا ہے اور وہاں سے رومانیہ میں ٹولچیا کے نواح میں ڈینیوب کے ڈیلٹا تک جاتا ہے۔ اسی راستے پر آسٹرین دارالحکومت ویانا بھی واقع ہے۔ یہ سائیکل رُوٹ اور دریا دونوں آٹھ ملکوں سے گزرتے ہیں۔