1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس کی ماراورٹڈیوں کے حملوں سے پریشان بھارت کے کسان

جاوید اختر، نئی دہلی
2 جولائی 2020

بھارت کے کسان ان دنوں دوہری مار جھیل رہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے ان کی فصلوں کے مناسب خریدار نہیں مل رہے ہیں تودوسری طرف ٹڈیوں کے حملوں نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔

Moderne Sklaverei
تصویر: Pete Pattison

حالانکہ حکومت کا دعوی ہے کہ کسانوں کو ان دونوں مصیبتوں سے نکالنے کے لیے متعدد اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن زمینی حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔

بھارت میں حکومت نے مئی کے اوائل میں کسانوں کے لیے اقتصادی پیکج کا اعلان کیا تھا جس میں فصلوں اور زرعی سازو سامان کے لیے بینکوں سے آسان قرض شامل تھا۔ تاہم کسانوں سے وابستہ گروپ، غیر حکومتی تنظیموں اورماہرین کا کہنا ہے کہ اس پیکج سے کسانوں کو کسی طرح کی فوری راحت ملنے والی نہیں ہے اور اس سے زرعی سیکٹر سے وابستہ مزدوروں کے فوری مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں۔

انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز (آئی سی آر آئی ای آر) نامی تھنک ٹینک سے وابستہ شویتا سینی کہتی ہیں کہ ”حکومت نے جس راحتی پیکج اور اقدامات کا اعلان کیا ہے اس سے درمیانہ مدت اور آنے والے برسوں میں کچھ اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں لیکن فوری طور پر اس سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔"

بھارت میں اپوزیشن کانگریس نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ”وزیر اعظم مودی کی طرف سے کسانوں کے لیے پیکج  'وعدوں کے سبز باغ‘ کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس میں کسان کی کوئی مدد نہیں ملے گی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے حال کسانوں کو حکومت مرہم لگانے کی جگہ زخم دے رہی ہے اور اس کو قرض کے جال میں دھکیل رہی ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 17.5 فیصد ہے۔ تصویر: picture-alliance/dpa/P. Adhikary

کسانوں کے حقوق کے لیے سرگرم بھارتیہ کسان یونین کے قومی سکریٹری یدھ ویر سنگھ کا خیال ہے کہ حکومت کے امدادی پیکج سے لاک ڈاون کے دوران کسانوں کوہونے والے نقصان کی بھرپائی نہیں ہوسکے گی۔”پھل او ر سبزیاں اگانے والے کسان تباہ ہوچکے ہیں کیوں کہ لاک ڈاون کی وجہ سے سپلائی چین ٹوٹ گئی ہے۔ کسانوں کو گیہوں ایک ہزار سے بارہ سو روپے فی کوئنٹل کے بھاو سے فروخت کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔"

بعض کسان تو اس صورت حال سے اتنے پریشان ہوچکے ہیں کہ انہوں نے کھیتوں میں اپنی کھڑی فصلوں کو جلانا شروع کردیاہے۔ گنے کے اپنے کھیت میں آگ لگادینے والے فرید کوٹ، پنجاب کے کسان جگتار سنگھ کہتے ہیں کہ”میں نے دو ایکڑ زمین پر گنے لگائے تھے۔ جن کی مالیت پانچ لاکھ روپے سے زیادہ ہوگی۔ لیکن چونکہ چینی ملیں بند ہیں اور کوئی سرکاری اہلکار بھی گنا خریدنے کے لیے ابھی تک نہیں آیا ہے اس لیے میں نے مجبورا ً پوری فصل کو آگ لگادی تاکہ کم از کم آنے والے دنوں میں دوسری فصل اگا سکوں۔"

کسانوں کو گیہوں ایک ہزار سے بارہ سو روپے فی کوئنٹل کے بھاو سے فروخت کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہےتصویر: DW/P. Mani Tewari

وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں قوم کے نام خطاب میں کسانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا”آج غریبوں کو، ضرورت مندوں کو، سرکار اگرمفت اناج دے پارہی ہے تو اس کا سہرا دو لوگوں کو جاتا ہے۔ پہلا ہمارے ملک کے محنتی اور جفا کش کسان، ہمارے اَن داتا۔ اور دوسرا ہمارے ملک کے ایماندار ٹیکس دہندگان۔ کسانوں کی سخت محنت اور جاں فشانی ہی ہے، جس کی وجہ سے ملک یہ مدد کرپارہا ہے۔ آپ نے ملک کے اناج کے ذخیرہ میں اضافہ کیا ہے، اس لئے آج غریب کا، مزدور کا چولہا جل رہا ہے...میں آج ملک کے ہر کسان کا دل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔"

ورلڈ بینک کی  2019 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مجموعی روزگار کا 42 فیصد سے زیادہ زراعت سے وابستہ ہے اور ملک کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 17.5 فیصد ہے۔ بھارت گیہوں، چاول، دالیں، گنا اور کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے چوٹی کے ملکوں  میں شامل ہے جبکہ پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کے لحاظ سے یہ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسانوں اور بالخصوص کھیت مزدوروں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ اور کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ ٹڈیوں کے حملے نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں