شب برات کے موقع پر روایتی طور پر لوگ اپنے عزیزوں کی قبروں پر جایا کرتے تھے، مگر رواں برس کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں سب کچھ یک سر بدل چکا ہے۔
اشتہار
کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں پاکستان کے مختلف شہروں میں لاک ڈاؤن جاری ہے، جب کہ جنوبی صوبے سندھ کی حکومت نے شب برات کے موقع پر لاک ڈاؤن سخت بناتے ہوئے شہریوں کو ہدایات دیں کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔
مذہبی رہنماؤں کی جانب سے بھی اس موقع پر عوام سے کہا گیا کہ وہ اس بار اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہوئے فوت ہونے والے اپنے عزیزوں کے لیے دعا کریں اور قبرستانوں کا رخ کرنے سے گریز کریں۔
روایتی طور پر شب برات میں لوگ اپنے عزیزوں کی قبروں پر دیے روشن کرتے ہیں اور ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ اس بار لیکن ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے۔
سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ عوام شب برات کے موقع پر مساجد میں خصوصی دعائیہ تقاریب یا قبرستانوں میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔ دوسری جانب صوبہ پنجاب کے محکمہ اوقاف نے بھی شہریوں کو اسی قسم کی ہدایات جاری کی ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ شب برات کے موقع پر ملک کی بڑی بڑی مساجد میں رات گئے تک جاری رہنے والی محافل منعقد کیے جانے کی روایت ہے، تاہم اس بار کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے تناظر میں ایسے محافل یا عوامی اجتماعات کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
15ویں شعبان کو منائی جانے والی شب برات کئی ثقافتی پہلو لیے ہوئے ہیں۔ مذہبی اور دعائیہ پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اور اہم پہلو مختلف افراد کا روایتی کھانے خصوصاً میٹھی ڈشیں پکا کر لوگوں کو کھلانا اور خیرات بانٹنا بھی ہے۔
افغانستان کی سلام یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر مصباح اللہ عبدالباقی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ یہ تہوار شیعہ اور سنی دونوں مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان مناتے ہیں اور اس موقع پر آتش بازی بھی کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالباقی کا تاہم کہنا ہے کہ اسلامی نکتہ ہائے نگاہ کے تحت 15 شعبان یا شب برات رمضان کی راتوں کی طرح کی کوئی غیرمعمولی رات نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا، "قرآن میں شبِ برات کی نسبت سے کوئی واضح حوالہ موجود نہیں ہے۔ اس بارے میں چند احادیث موجود ہیں، مگر وہ ضعیف ہیں۔"
تاہم انہوں نے احادیث کی کتب بخاری اور مسلم کے حوالے سے کہا کہ پیغبر اسلام رمضان کے مہینے کے علاوہ کسی بھی دوسرے مہینے کے مقابلے میں شعبان میں زیادہ روزے رکھا کرتے تھے۔
عبدالباقی نے احادیث کی کتاب ابنِ ماجہ کے حوالہ دیتے ہوئے کہا وہاں ضرور درج ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کو خدا معافی کے دروازے کھول دیتا ہے۔
انہوں نے تاہم کہا کہ کورونا وائرس کی وبائی صورت حال میں روایتی سرگرمیوں کو محدود بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام وباؤں کو محدود کرنے کا درس دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی رہنما بھی عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اس وبا کے مزید پھیلاؤ کا ذریعہ نہ بنیں۔
اسلامی عبادات کا اہم رکن: حج
سعودی عرب کے مقدس مقام مکہ میں اہم اسلامی عبادت حج کی ادائیگی ہر سال کی جاتی ہے۔ حج کے اجتماع کو بڑے مذہبی اجتماعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ رواں برس کے حج کے دوران سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
حاجیوں کی تعداد
زائرین سعودی شہر مکہ میں واقع خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں۔ یہ اسلامی مذہب کا سب سے مقدس ترین مقام ہے۔ ہر مسلمان پر ایک دفعہ حج کرنا واجب ہے، بشرطیکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہوا۔ سن 1941 میں حج کرنے والوں کی تعداد محض چوبیس ہزار تھی جو اب سفری سہولتوں کی وجہ سے کئی گنا تجاوز کر چکی ہے۔ رواں برس یہ تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
خانہٴ کعبہ کا طواف
دوران حج زائرین مختلف اوقات میں خانہٴ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور حجر اسود کو چومنے کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ایک طواف کی تکمیل میں سات چکر شمار کیے جاتے ہیں۔ استعارۃً خانہ کعبہ کو اللہ کا گھر قرار دیا جاتا ہے۔ زائرین طواف کے دوران بلند آواز میں دعائیہ کلمات بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
چون ملین حاجی
گزشتہ پچیس برسوں کے دوران حج کرنے والوں کی تعداد چون ملین کے قریب ہے۔ سعودی حکام کا خیال ہے کہ سن 2030 تک سالانہ بنیاد پر مکہ اور مدینہ کے زیارات کرنے والے زائرین کی تعداد تیس ملین کے قریب پہنچ جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Al-Rubaye
اسی لاکھ قرآنی نسخے
سعودی عرب کے محکمہٴ حج کے مطابق ہر روز مختلف زبانوں میں ترجمہ شدہ قرآن کے اسی لاکھ نسخے مختلف ممالک کے زائرین میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ مقدس مقامات میں افراد کو حسب ضرورت مذہبی وظائف کی کتب بھی پڑھنے کے لیے دی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
دو ہزار اموات
حج کے دوران دہشت گردی کے خطرے کو سعودی سکیورٹی حکام کسی صورت نظرانداز نہیں کرتے لیکن مناسک حج کے دوران بھگدڑ مچھے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سب سے خوفناک سن 2015 کی بھگدڑ تھی، جس میں دو ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ سعودی حکام اس بھگدڑ میں ہلاکتوں کی تعداد محض 769 بیان کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
خصوصی ایمبیولینس سروس
مناسک حج کی ادائیگیوں کے دوران پچیس مختلف ہسپتالوں کو چوکس رکھا گیا ہے۔ تیس ہزار ہنگامی طبی امدادی عملہ کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے الرٹ ہوتا ہے۔ ہنگامی صورت حال کے لیے 180 ایمبیولینسیں بھی ہر وقت تیار رکھی گئی ہیں۔ شدید گرمی میں بھی کئی زائرین علیل ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Sahib
تین ہزار وائی فائی پوائنس
رواں برس کے حج کے دوران سولہ ہزار ٹیلی کمیونیکیشن ٹاور تعمیر کیے گئے ہیں۔ انہیں تین ہزار وائی فائی پوائنٹس کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ اس طرح رواں برس کے حج کو ’سمارٹ حج‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
ہزاروں خصوصی سول ڈیفنس اہلکاروں کی تعیناتی
رواں برس کے حج کے دوران ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ اٹھارہ ہزار شہری دفاع کے رضاکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار مختلف مقامات پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Yasin
حاجیوں کی آمد کا سلسلہ
مناسک حج کی عبادات میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے بذریعہ ہوائی جہاز اور ہمسایہ ممالک سے زمینی راستوں سے لاکھوں افراد سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ صرف چودہ ہزار انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک پروازیں سعودی ہوائی اڈوں پر اتری ہیں۔ اکیس ہزار بسوں پر سوارہو کر بھی زائرین سعودی عرب پہنچے ہیں۔