کورونا وائرس کی وبا سے مشرقِ وسطیٰ میں گھریلو تشدد میں اضافہ
3 اپریل 2020
مشرقِ وسطیٰ میں کورونا وائرس کی وبا نے گھریلو تشدد میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مردوں کا زیادہ وقت گھروں میں گزارنا قرار دی جا رہی ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/M. Vatsyayana
اشتہار
مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ملکوں کی حکومتیں کورونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ اس خطے کی ریاستوں بشمول خلیج فارس کے عرب ممالک اور اسرائیل میں ان دنوں بیسیوں ہزار مریض کووِڈ انیس نامی بیماری میں مبتلا ہیں اور سماجی طور پر لاک ڈاؤن کی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔
سماجی تنظیموں کے کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی مسلمان ریاستوں میں خواتین پر ہر روز کیا جانے والا جسمانی تشدد اب معمول کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہ وہاں کی پدر سری معاشرت کا تسلسل ہے۔ لبنان میں ایک سماجی کارکن رانیہ سلیمان کا کہنا ہے کہ عرب دنیا کی خواتین کو مار پیٹ کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانوں کو محفوظ رکھنے کے سلسلے میں اضافی معاشرتی دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
اس تناظر میں شمالی افریقی ملک تیونس کی نسائی امور کی وزیر اسما شری نے اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے تشویش ظاہر کی کہ کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات سے عام گھرانوں میں خواتین پر چار دیواری کے اندر تشدد بڑھ گیا ہے۔ تیونس میں کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے سلسلے میں رواں ماہ کے وسط سے سول کرفیو نافذ ہے۔
عورت معاشرے کا ہمہ گیر کردار
دیگر معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی عورت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ معاشی بوجھ تلے دبے طبقے سے تعلق رکھتی ہو یا خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانے سے، وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دینے کی کوشش کرتی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
انسانیت کی خدمت پر مامور
انسانیت کی خدمت پر مامور نرسوں کو آج بھی پاکستان میں معتبر رتبہ نہیں دیا جاتا۔ انتہائی مشکل حالات میں تعیلم اور تربیت حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھنے کے بعد نرسوں کو گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کردار تبدیل ہوتے ہوئے
معاشی بوجھ تلے دبے خاندان کی عورت 75 سال کی عمر میں بھی با عزت طریقے سے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوٹے سے کھوکھے پر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کوزہ گری ایک فن
مٹی سے خوبصورت کوزے اور کونڈے بنانے والی یہ خواتین برسوں سے کوزہ گری کا کام کر رہی ہیں۔ کئی پشتوں سے اس کام کو سرانجام دینے والے یہ خواتین اپنے خاندانوں کی لیے ذریعے معاش بنی ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
نڈر خواتین
پولیو کے خلاف مہم میں خواتین کا کردار اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ شدت پسند حلقوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور حملوں کے باوجود اس مہم میں کئی ہزار خواتین حصہ لے رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو اخراجات اٹھانے والی
مچھلی فروش زرین کا تعلق خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو قبیلے کی دیگر خواتین کے ساتھ شہر میں جگہ جگہ ٹھیلے لگا کر گھریلو اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں اپنے مردوں کی مدد کرتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
بیوٹی پارلرز
جن خواتین کو گھرں سے نکل کر مردوں کے ہمراہ کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی وہ شہر کے گلی کوچوں میں کُھلے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں وہ دن کے آٹھ گھنٹے صرف ساتھی خواتین کے ساتھ ہی وقت گزارتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
گھریلو ملازمائیں
پاکستان کی لاکھوں گھریلو ملازمائیں انتہائی کم اجرت کے عوض 16 گھنٹے سے زائد مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اپنے گھروں کی واحد کفیل ہوتی ہیں۔ ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ان خواتین کے شوہر بے روزگار ہونے یا نشے کے عادی ہونے کے باعث ان کی مالی امداد نہیں کر پاتے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
یہ بھی پاکستانی خواتین ہیں
چند دہائیوں قبل تک پاکستان میں ماڈلنگ کے شعبے سے وابسطہ خواتین کو معاشرے میں تنقیدی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اب فیشن انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت اور کردار کو قبول کیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
تمام کام خوش اسلوبی سے
عورت پر کام کا بوُجھ جتنا بھی ہو وہ اپنی فطری ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرتی۔ محنت کرنا، کمانا اور بچوں کو سنبھالنا وہ بھی خوش اسلوبی سے۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی سرگرمیاں
ایسے فیسٹیول معنقد ہو رہے ہیں جن میں خواتین اپنے ہنر کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ چاہے اشیاءِ خوردونوش کا اسٹال ہو یا آرٹ اینڈ کرافٹس، خواتین ان میلوں میں بھر پور طرح سے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سماجی مہم میں بھی پیش پیش
’کراچی کو خوبصورت بنانے اور امن کا پیغام دینے‘ کے لیے مردوں کے ہمراہ خواتین بھی شانہ بشانہ کام کرتی ہوئی نظر آئیں۔ خواتین صرف گھروں یا آفس تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
سنگھارعورت کا فطری شوق
سڑک کنارے میوہ جات فروخت کرنے کے دوران خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگا کر اپنا دل بھی بہلا لیتی ہیں اور بننے سنورنے کا سامان بھی کر لیتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
کیا خاندان کا معاشی بوُجھ صرف مرد اُٹھاتے ہیں؟
دفتر ہو یا دیگر کام یا چاہے گھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیےسڑک پر بیٹھ کر تربوز بیچنے کا ٹھیلہ ہی کیوں نہ لگانہ پڑے، خواتین کہیں پیچھے نہیں ہٹتیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
فیشن کی صنعت ترقی کی طرف گامزن
پاکستان میں فیشن کی صنعت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اسی حوالے سے ہونے والے فیشن شُوز بھی اب معمول کا حصہ ہیں اور ان کے انتظام سے سے لے کر آرائش تک ہر جگہ خواتین جلوہ گر نظر آتی ہیں۔
تصویر: DW/Unbreen Fatima
14 تصاویر1 | 14
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق واضح طور پر دنیا کے ایک سو پچپن ممالک میں خواتین کو امتیازی رویوں کا سامنا ہے۔ اس تعداد میں سے نصف کے قریب ممالک مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ہیں۔ ان ممالک نے اپنے ہاں گھریلو تشدد کے انسداد کے لیے فوجداری قوانین بھی متعارف کرا رکھے ہیں تاہم گھروں میں کیے جانے والے تشدد میں کمی ابھی تک نہیں ہوئی۔
ایک خاتون لیلیٰ نے بتایا کہ شادی کے بعد سے اسے تشدد کا سامنا بالکل اسی طرح اور تواتر سے ہے، جیسے کسی جاندار کا سانس لینا۔ لیلیٰ کے مطابق اس صورت حال میں سالوں گزرنے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اپنے فرضی نام لیلیٰ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس خاتون نے اپنا اصل نام اور ملکی شناخت دونوں ظاہر نہ کیے جانے کی درخواست کی۔
لیلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شوہر کی طرف سے مار پیٹ کے بعد وہ اپنے والدین کے گھر پناہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے اور پھر معاشرتی طعنوں اور کسی قسم کے اسکینڈل سے بچنے کی خاطر وہ ہر بار مجبوراﹰ واپس اپنے شوہر کے گھر لوٹ جاتی ہے۔ اس خاتون کے مطابق جب وہ واپس اپنے گھر آتی ہے، تو سبھی بچوں کے چہروں اور جسموں پر مار پیٹ کے نشان ہوتے ہیں۔
لیلیٰ اور اس جیسی دیگر خواتین کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات نے اس لیے بھی پریشان کر دیا ہے کیونکہ اب ان کے شوہر گھروں میں ہی ہوتے ہیں۔ ایک ترک خواتین عائشہ کا کہنا تھا کہ ایردوآن حکومت کو گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے ملک میں مزید سخت اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
کہاں ہیں عورتیں برابر؟
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 2016 میں عورتوں کو برابری کا مقام دینے کے معاملے میں 147 ممالک کی کیا رینکنگ رہی، دیکھتے ہیں اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/F.Belaid
ایک سو چوالیس یعنی آخری نمبر : یمن
تصویر: Getty Images/F.Belaid
نمبر ایک سو تینتالیس: پاکستان
تصویر: picture alliance/Pacific Press Agency/R. S. Hussain