کورونا وائرس: اسرائیل ’محفوظ ترین ملک‘، جرمنی دوسرے نمبر پر
شمشیر حیدر م م
16 اپریل 2020
جرمنی میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود کئی دیگر ممالک کی نسبت ہلاکتیں کم ہوئی ہیں۔ لیکن ایک برطانوی ادارے کے مطابق اسرائیل کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے میں جرمنی سے بھی آگے ہے۔
اشتہار
کورونا وائرس کی عالمی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت سے لے کر جان ہاپکنز یونیورسٹی اور ورلڈومیٹرز سمیت کئی ادارے اعداد و شمار جاری کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی جرمنی سمیت متعدد ممالک میں اس نئے مرض سے متعلق متعدد سروے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم برطانوی ادارے 'ڈیپ نالج گروپ‘ نے ان اعداد و شمار کو مختلف فریم ورکس میں تقسیم کر کے انہیں بہتر اور گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
اس ادارے نے دو سو سے زائد ممالک کے بارے میں ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ ان میں سے ستر ممالک کے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے بعد ان ممالک کی کارکردگی کی درجہ بندی کی گئی ہے۔
کورونا وائرس سے تحفظ، کون سے ممالک آگے؟
کووِڈ انیس سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک کے اقدامات کو چار مرکزی اور درجن بھر ثانوی معیارات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں قرنطینہ سے متعلق اقدامات، وائرس سے متاثرہ افراد کی نشاندہی کرنے اور ان پر نظر رکھنے، حکومت کی انتظامی صلاحیت اور ہنگامی صورت میں علاج فراہم کرنے کی صلاحیت شامل ہیں۔
اس اعتبار سے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا تو 632.32 کے اسکور کے ساتھ اسرائیل سر فہرست رہا۔ جرمنی 631.07 کے اسکور کے ساتھ دوسرے جب کہ جنوبی کوریا 628.17 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
واضح رہے کہ جرمنی میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 134,753 ہو چکی ہے اور اس کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 3,800 ہے۔
اس کے مقابلے میں اسرائیل میں اب تک 12,591 کیسز سامنے آ چکے ہیں جن میں سے 140 مریضوں کا انتقال ہو چکا ہے۔
چین، تائیوان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور ہانگ کانگ بھی ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہیں۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک اس درجہ بندی میں پہلے چالیس ممالک کی فہرست میں بھی کہیں جگہ نہیں پا سکے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سے متحدہ عرب امارات اٹھارہویں، کویت چوبیسویں اور قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
خالی شہر، ویران سیاحتی مقامات
کورونا وائرس کی وبا سے کئی ملکوں میں ہُو کا عالم طاری ہے۔ شہروں میں ویرانی چھائی ہے اور لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ سنسان سیاحتی مقامات کی بھی اپنی ایک کشش ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
مارین پلاٹز، میونخ
جرمن شہر میونخ کے ٹاؤن ہال کے سامنے مارین پلاٹز اجڑا ہوا اوپن ایئر تھیئٹر کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ اِکا دُکا افراد اس مقام پر کھڑے ہو کر ٹاؤن ہال کے واچ ٹاور کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ واچ ٹاور کے گھڑیال کی گھنٹیاں شائقین شوق سے سنا کرتے تھے۔ فی الحال مارین پلاٹز میں پولیس اہلکار ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
اسپینش اسٹیپس، روم
تاریخی شہر روم کو آفاقی شہر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا مشہور سیاحتی مقام اسپینش اسٹیپس اور بارکاچا فاؤنٹین بھی آج کل سیاحوں کے بغیر ہیں۔ بارکاچا فوارہ سن 1598 کے سیلاب کی نشانی ہے۔ فوارے کا پانی چل رہا ہے لیکن سیڑھیوں پر سیاح موجود نہیں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
لا رمبلا، بارسلونا
ابھی کچھ ہی ہفتوں کی بات ہے کہ ہسپانوی شہر بارسلونا کے مقام لا رمبلا کی تصویر میں بہت سے سیاح نظر آیا کرتے تھے لیکن اب یہ جگہ ویران ہے۔ صرف تھوڑے سے کبوتر مہمانوں کی راہ دیکھتے پھرتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رکھا ہے لیکن یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔ وائرس کی وبا سے اسپین میں پندرہزارسے زائد لوگ دم توڑ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
شانزے لیزے، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں شانزے لیزے معروف کاروباری شاہراہ ہے۔ یہ پیرس کی شہ رگ تصور کی جاتی ہے۔ اب اس سڑک پر صرف چند موٹر گاڑیاں ہیں اور آرچ دے ٹری اُمف یا فتح کی محراب ویران دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Tang Ji
ٹاور برج، لندن
لندن شہر سے گزرتے دریائے ٹیمز پر واقع مشہور پُل معمول کے مقابلے میں بہت پرسکون ہے۔ سیاح موجود نہیں اور دریا میں سے کشتیاں بھی غائب ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا سے پُل کے دونوں اطراف لوگ دکھائی نہیں دہتے۔ لوگ احتیاطً گھروں سے باہر نہیں نکل رہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
حاجیہ صوفیہ، استنبول
ترک شہر استنبول کا اہم ترین سیاحتی مرکز حاجیہ صوفیہ اور اس کے سامنے کا کھلا دالان۔ یہ ہمیشہ سیاحوں اور راہ گیروں سے بھرا ہوتا تھا۔ وائرس کی ایسی وبا پھیلی ہے کہ نہ سیاح ہیں اور نہ ہی مقامی باشندے۔ لوگوں کی عدم موجودگی نے منظر بدل دیا ہے۔ ارد گرد کی سبھی عمارتیں اب صاف نظر آتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Xu Suhui
تورسکایا اسٹریٹ، ماسکو
روسی دارالحکومت ماسکو کی کھلی شاہراہ تورسکایا فوجی پریڈ کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔ وائرس کی وبا کے ایام میں اب سن 2020 کے موسم بہار کے شروع ہونے پر اس شاہراہ پر جراثیم کش اسپرے کرنے والے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/G. Sysoev
اہرامِ فراعین، الجیزہ قاہرہ
فراعینِ مصر کے مقبرے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے سیاحوں کے بغیر ہیں۔ ان کو اب صرف جراثیم کش اسپرے والے باقاعدگی سے دیکھنے جاتے ہیں۔ اہرام مصر یقینی طور پر تاریخ کے ایک مختلف بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ مصر کو بھی کووڈ انیس کی مہلک وبا کا سامنا ہے۔ اس ملک میں وائرس کی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Hamdy
خانہ کعبہ، مکہ
سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کا سب سے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ بھی زائرین کے بغیر ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد اس مقام کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ یہ مقدس مقام بھی دو اپریل سے کرفیو میں ہے۔ اس میں ہر وقت ہزاروں عبادت گزار موجود ہوا کرتے تھے۔ وائرس سے بچاؤ کے محفوظ لباس پہنے افراد اس مقام اور جامع مسجد میں جراثیم کش اسپرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Nabil
تاج محل، آگرہ
تاریخی اور ثقافتی مقامات میں تاج محل کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ محبت کی یہ یادگار اب دیکھنے والوں کی منتظر ہے۔ کووڈ انیس کی وبا کے پھیلنے کے بعد بھارت کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ تاج محل کو فوجیوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے تا کہ شائقین اس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اس مقام کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ گھر میں رہنے میں بہتری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
ٹائم اسکوائر، نیو یارک سٹی
نیو یارک سٹی کا مرکزی مقام کہلانے والا ٹائم اسکوائر کورونا وائرس کی وبا سے پوری طرح اُجاڑ دکھائی دیتا ہے۔ دوکانیں بند اور شاپنگ مالز خریداروں کو ترس رہے ہیں۔ سڑکیں ویران اور فٹ پاتھ راہگیروں کے بغیر ہیں۔ ہر وقت جاگنے والا شہر اس وقت سویا ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/T. Stolyarova
بوربن اسٹریٹ، نیو اورلیئنز
سیاحوں سے رات گئے تک بھری رہنے والی بوربن اسٹریٹ کو بھی وائرس کی نظر لگ چکی ہے۔ امریکا ریاست لُوئزیانا کا ’بِگ ایزی‘ کہلانے والے اس شہر کی نائٹ لائف بہت مقبول تھی لیکن اب کورونا وائرس کی وبا نے رات بھر جاری رہنے والی سرگرمیوں کو پوری طرح منجمد کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Herbert
برازیل: کوپا کابانا، ریو ڈی جنیرو
برازیلی بندرگاہی اور سیاحتی شہر ریو ڈی جنیرو میں بھی کووڈ انیس کی بیماری نے ہُو کا عالم طاری کر رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کے شہر پر کسی بھوت نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کا ساحلی علاقہ کوپا کابانا کبھی قہقہوں اور کھیلتی زندگی سے عبارت تھا اب وہاں صرف بحر اوقیانوس کی موجیں ساحل سے ٹکراتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/F. Teixeira
اوپرا ہاؤس، سڈنی
آسٹریلوی شہر سڈنی کا اوپرا ہاؤس دنیا میں اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے مقبول ہے۔ اس اوپرا ہاؤس کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں مقیم رہیں۔ اوپرا ہاؤس کے دروازے تاحکم ثانی بند کر دیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aap/B. De Marchi
عظیم دیوارِ چین
کورونا وائرس کی بیماری نے چین میں جنم لیا تھا۔ وبا کے شدید ترین دور میں سارے چین میں لاک ڈاؤن تھا۔ رواں برس مارچ کے اختتام پر عجوبہٴ روزگار تاریخی دیوارِ چین کو ملکی سیاحوں کے لیے کھولا گیا۔ یہ تصویر دیوار کو کھولنے کے بعد کی ہے جو ساری دنیا کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اچھے دن قریب ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kyodo
15 تصاویر1 | 15
پاکستان اس درجہ بندی میں شامل نہیں تاہم جنوبی ایشیائی ممالک میں سے بھارت کو 545.42 پوائنٹس دیے گئے ہیں۔ کورونا وائرس سے تحفظ کے اعتبار سے بھارتی کارکردگی درمیانے درجے میں شمار کی گئی۔
سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش کو کم کارکردگی کے درجے میں شمار کیا گیا۔
کووِڈ انیس خطرے کی درجہ بندی
اس ادارے نے ان ممالک کی درجہ بندی بھی کی جہاں کورونا وائرس کا خطرہ زیادہ ہے۔
اس فہرست میں اٹلی پہلے، امریکا دوسرے جب کہ برطانیہ تیسرے نمبر پر ہے۔ دیگر ٹاپ ٹین خطرناک ممالک میں سپین، فرانس، سویڈن، ایران، ایکواڈور، فلپائن اور رومانیہ شامل ہیں۔
کورونا وائرس کے رِسک کے اعتبار سے کی گئی درجہ بندی میں جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش تیرہویں اور بھارت پندرہویں نمبر پر ہے۔
خالی گلیوں پر جانوروں کا راج
کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں بندشوں نے انسانوں کو گھروں تک محدود کر کے رکھ دیا ہے، مگر خالی سڑکوں پر جانور ان دنوں جشن مناتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
شہر کا دورہ
ویلز کے قصے لانڈوڈنو میں پہاڑی بکریاں خالی سڑکوں پر گھومتی اور ادھر ادھر دیکھی نطر آ رہی ہیں۔ ویڈیو پروڈیوسر اینڈریو اسٹورٹ کی ٹوئٹر پر پوسٹ کے بعد تو ان کی تصاویر اب آن لائن فیورٹ بن چکی ہیں۔ اسٹورٹ لکھتے ہیں، ’’ ان گلیوں میں کوئی نہیں جو انہیں ڈرا سکے۔ انہیں کوئی پروا نہیں ہے اور یہ جو جی چاہ رہا ہے، کھا رہی ہیں۔‘‘ برطانیہ میں 23 مارچ سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/P. Byrne
نئی دنیا کی دریافت
آٹھویں صدی میں نارا نامی قدیمی شہر جاپان کا دارالحکومت تھا۔ اس وقت نارا میں پھرنے والے ہرنوں کو’دیوتاؤں کے پیام بر‘ کے طور پر لیا جاتا تھا۔ شہر کے ہزار سے زائد ہرن مرکزی پارک میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اب شہریوں کے باہر نکلنے کی ممانعت کے دور میں کچھ شرارتی ہرنوں نے نارا کی گلیوں اور سڑکوں پر گھومنے کا شوق اپنا لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. C. Hong
بندروں کا خطرہ
تھائی لینڈ کے شہر لوپبوری میں سینکڑوں بندروں نے ادھر اُدھر پھرنے کو معمول بنا لیا ہے۔ یہ بندر بہت نرم خُو بھی نہیں ہیں۔ وبا کے دور میں لوگوں کی کمی کی وجہ سے خوراک بھی کم ہو کر رہ گئی ہے۔ اِس باعث روٹی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ان بندروں کے جتھوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Z. Tun
شہر بھی جنگل
حال ہی میں ایک نوجوان چیتے کو لاطینی امریکی ملک چلی کے دارالحکومت سنتیاگو کے مرکزی علاقے میں گھومتے پھرتا دیکھا گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد ایک اور چیتا شہر میں پھرتے دیکھا گیا۔ یہ جنگلی جانور قریبی پہاڑی سلسلے آنڈیس سے اتر کر شہر میں داخل ہو رہے ہیں کیونکہ ساٹھ لاکھ کی آبادی کا شہر لاک ڈاؤن کے زیر اثر ہے۔
تصویر: AFP/A. Pina
غیر مانوس سرزمین
دنیا کی سترہ فیصد آبادی کا ملک بھارت ہے۔ چوبیس مارچ سے اس ملک میں تین ہفتے کے لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو چکا ہے۔ شہر اور قصبے ویران ہیں۔ بھارت کے ایک بڑے شہر کولکٹا میں آوارہ کتوں نے ڈھیرے ڈال لیے ہیں۔ اس وقت سارے بھارت میں لاکھوں آوارہ کتے مختلف شہروں میں پھر رہے ہیں۔ ان آوارہ کتوں کو ہلاک کرنے کا قانون بھی منظور کیا گیا ہے۔
تصویر: AFP/D. Sarkar
آوارہ جانوروں کی حکمرانی
ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں آوارہ کتے اور بلیاں عام طور پر نظر آتے ہیں لیکن کورونا وائرس کی وبا میں سیاحوں سے بھرے شہر میں ویرانی پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں قریب دو لاکھ سے زائد کتوں اور بلیوں کے جتھے استنبول کی سڑکوں اور گلیوں میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے کارکنوں کے مطابق وبا کے دوران کئی افرد نے اپنے پالتو جانوروں کو بیکار جان کر باہر پھینک دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Demirtas
خاموش نہریں
اطالوی شہر وینس کو سیاحوں کی من پسند منزل خیال کیا جاتا ہے۔ کووڈ انیس نے اٹلی کو شدید انداز متاثر کیا ہے۔ اس ملک میں بیس ہزار کے قریب اموات اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ میں وائرس کی تشخیص کی جا چکی ہے۔ دوسرے شہروں کی طرح وینس بھی ویران ہو کر رہ گیا ہے۔ وینس کی نہروں کے گنڈولے، واٹر بوٹس اور واٹر ٹیکسیاں اب سیاحوں کی راہ دیکھ رہی ہیں۔
تصویر: AFP/A. Pattaro
7 تصاویر1 | 7
مریضوں کا علاج اور حکومتی معاونت
کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج کرنے کے حوالے سے کی گئی درجہ بندی میں جرمنی سرفہرست ہے جب کہ چین دوسرے نمبر ہے۔
اس وبا کے باعث دنیا بھر کے بیشتر ممالک کو لاک ڈاؤن کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یوں صحت کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کا بحران معیشت کے لیے بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
عوام کو مدد فراہم کرنے کے حوالے سے بھی اعداد و شمار کا جائزہ لے کر درجہ بندی کی گئی۔
اس اعتبار سے بھی جرمنی دنیا کے دیگر ممالک سے آگے ہے۔ دوسرے نمبر پر امریکا، تیسرے پر جاپان اور چوتھے نمبر پر برطانیہ ہے۔ اسرائیل اس اعتبار سے گیارہویں نمبر پر ہے۔
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔