1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس کے خلاف جنگ، جنوبی کوریا جرمنی کا رول ماڈل

30 مارچ 2020

کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں جرمنی نے انفیکشن کے پھيلاؤ پر قابو پانے کے ليے وسیع پیمانےپر جانچ اور قرنطینہ کرنے کی حکمت عملی جنوبی کوریا سے مستعار لی ہے۔

Deutschland Coronavirus Schutzkleidung
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch

جرمن حکام کے مطابق کسی بھی دوسرے یورپی ملک کے مقابلے میں جرمنی پہلے ہی ہر ہفتے تین سے پانچ لاکھ افراد کے کورونا وائرس ٹیسٹ کروا رہا ہے۔

جرمن وزارت داخلہ کی متعدد دستاویزات کے مطابق چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت کا مقصد يا ہدف ہے کہ روزانہ کم سے کم دو لاکھ افراد کے ٹیسٹ کروائے جائیں۔

اس کا مقصد ان تمام لوگوں کا معائنہ کروانا ہے، جن کے بارے ميں شبہ ہے کہ ان پر کورونا وائرس حملہ کر چکا ہے اور ساتھ ہی ان لوگوں کے پورے حلقہ احباب اور ملنے جلنے والوں کا بھی ٹيسٹ کر وايا جا رہا ہے جن ميں مہلک کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔

تصویر: Imago Images/Xinhua/Wang Jingqiang

فی الوقت جانچ يا معائنے کے معیارات یہ ہيں کہ ان لوگوں پر تمام توجہ مرکوز کی جائے، جن ميں کووڈ انیس کی علامات موجود ہیں اور جو تصدیق شدہ مریضوں سے رابطے میں تھے۔

اس دستاویز کے مطابق حکمت عملی یہ ہے کہ ٹیسٹوں کے ذريعے صورتحال کی تصدیق ہونے کے بعد اس سے اگلے مرحلے کے ليے ٹيسٹ کی طرف بڑھا جائے۔ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ایک اہم ہتھیار اسمارٹ فون لوکیشن ڈیٹا کا استعمال ہے جو کسی بھی مریض کی حالیہ نقل و حرکت کا سراغ لگانے کا ذريعہ ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے ممکنہ طور پر متاثرہ افراد کو زیادہ درست طریقے سے تلاش کرنے اور انہيں الگ تھلگ رکھنے کے عمل ميں بہت مدد ملتی ہے۔

"ٹرپل ٹی" اسٹريٹيجی

جرمنی کے مجوزہ منصوبوں سے "ٹریس، ٹیسٹ اور ٹریٹ" حکمت عملی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ يہی حکمت عملی جنوبی کوریا نے اپنائی اور اس نے وبا پر کامیابی سے قابو پا ليا۔ اس میں ممکنہ کيسز کی وسيع پيمانے پر اسکریننگ اور مریضوں کی نگرانی کے ليے ٹیکنالوجی کا بھاری استعمال شامل ہے۔

اگرچہ جرمنی اور جنوبی کوریا دو بالکل مختلف ممالک ہیں لیکن جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ (آر کے آئی) کے سربراہ لوتھر ويلر کے مطابق اس ایشیائی ملک کی وائرس کی روک تھام کے ليے حکمت عملی "ايک مثال ثابت ہو سکتی ہے"۔ لوتھر ويلر کے بقول، "اس اسٹريٹيجی کا اہم ترين نکتہ سیل فون کے ڈیٹا کو ٹریس کرنا ہے۔"

تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon

52 ہزار سے زیادہ کيسز میں سے مجموعی طور پر 389 اموات کے ساتھ جرمنی میں شرح اموات صرف 0.7 فیصد ہیں جبکہ سب سے زیادہ متاثرہ اٹلی میں 10 فیصد اور اسپین میں شرح اموات آٹھ فیصد ہے۔

لیکن جرمنی کے وزیر صحت ژینس اسپاہن نے متنبہ کیا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں ملک کو نئے"طوفان" کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دريں اثناء رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ لوتھر ويلر نے متنبہ کیا کہ جرمنی میں بھی اٹلی کے ہسپتالوں جيسے ڈرامائی مناظر پیش آ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا،''یہ بعيد از امکان نہيں کہ ہمارے یہاں بھی وینٹیلیٹرز سے زیادہ مریضوں کی تعداد ہو جائے۔‘‘

جرمنی کی طبی سہولیات کی صورتحال

سانس کی تکلیف میں مبتلا مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے وینٹیلیٹرز سے لیس 25 ہزار انتہائی نگہداشت والے بستروں کی سہوليات کے ساتھ جرمنی بہت سارے ممالک سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ لیکن صحت کے شعبے کے بجٹ ميں گزشتہ سالوں ميں ہونے والی کمی نے ملک کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے صحت کی معاشیات کے ماہر رائن ہارڈ بسسے کے بقول،''حالیہ مہینوں میں عملے کی کمی کی وجہ سے ہسپتالوں سے انتہائی نگہداشت کے بستروں کو نکالناپڑا۔‘‘ جرمنی میں اس وقت نرسنگ کیئر کے شعبے میں تقریباﹰ سترہ ہزار آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اسکے نتیجے میں کورونا وائرس کے متوقع حملے سے نمٹنے کے ليے بہت سارے ہسپتالوں بشمول برلن کے معروف چیریٹی یونیورسٹی ہسپتال ميں ماہرین کی مدد کے ليے پیشہ ور ريٹائرڈ افراد یا طلبہ کی مدد طلب کی گئی ہے۔


 

ک ک / ا ا / اے ایف پی

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں