کورونا وائرس کے عہد میں موت، ماتم اور تعزیت: سب کچھ بدل گیا
25 مارچ 2020
اٹلی میں کووِڈ انیس کے ہاتھوں مرنے والوں کی لاشیں لے جانے والے فوجی ٹرکوں کی قطاروں کے دل خراش مناظر نے کورونا وائرس کے عہد میں یہ حقیقت بھی بدل دی ہے کہ ہم انسان موت کا سامنا کس طرح کرتے ہیں اور اس سے کس طرح نمٹتے ہیں۔
اشتہار
شمالی اٹلی کے شہر بیرگامو کی سڑکوں پر ملکی فوج کے ٹرک کئی دنوں سے نظر آ رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں مرنے والوں کی لاشیں اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں میت سوزی کی مقامی تنصیبات تک پہنچانے کا بھی اب کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ دنیا بھر کے انسان گزشتہ چند دنوں سے انٹرنیٹ پر پہلی بار یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اٹلی میں انسانی لاشوں سے بھرے فوجی ٹرک لمبی قطاروں کی صورت میں آہستہ آہستہ حرکت میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تنہائی میں موت
اس وقت کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وبا کے دور میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ لوگ اس طرح مرنے لگیں کہ آخری وقت پر ان کے پیاروں میں سے کوئی ایک بھی ان کے پاس نہ ہو۔ اس وائرس نے یہ رلا دینے والا پیغام بھی دیا ہے کہ اسے اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کہ زندگی کی طرح موت کو بھی پروقار اور بااحترام ہونا چاہیے اور مرنے والوں کے اہل خانہ اور احباب کو تعزیت اور سوگواری کا موقع بھی تو ملنا ہی چاہیے۔
اٹلی میں بیرگامو کے صوبے میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد اس ملک کے کسی بھی دوسرے صوبے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ ہفتے بیرگامو میں تین سو سے زائد افراد کووِڈ انیس کے ہاتھوں مارے گئے۔ مقامی حکام کے مطابق ان میں سے بہت بڑی اکثریت مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج تھی اور ان کے پاس ان کا کوئی ایک بھی رشتے دار یا دوست موجود نہیں تھا، جو انہیں تسلی دیتا یا ان کے ہاتھ پکڑ کر انہیں ان کے خوف سے نجات دلانے کی کوشش کرتا۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کہ ہسپتالوں میں تیمار داروں کو جانے کی اجازت نہیں ہے اور اکثر مریضوں کے اہل خانہ تو خود کسی نہ کسی ہسپتال میں قرنطینہ میں تھے۔
کورونا اپنے ضابطے خود طے کرتا ہے
کورونا وائرس اپنے پھیلاؤ اور اپنے مہلک پن کے تسلسل کے لیے جو راستے اختیار کرتا ہے اور جن اصولوں پر کاربند رہتا ہے، وہ اس کے اپنے ہی بنائے ہوئے ہیں اور ابھی تک یہ مہلک جرثومہ ان میں کسی تبدیلی یا ترمیم پر آمادہ نظر نہیں آتا۔
کورونا کے اسی جبر کا حصہ اس کی وجہ سے ہونے والی وہ موت بھی ہے، جو کم از کم عام انسانوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ تو کبھی نہیں تھی۔ موت بھی ایسی جس میں لواحقین سوگوار تو ہوتے ہیں، ان کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات بھی اٹھتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا۔
ان دنوں شمالی اٹلی میں جنازوں اور مردوں کی تدفین میں اتنی تیزی اور وسعت دیکھنے میں آ رہی ہیں، جتنی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں۔ مردوں کی تدفین یا آخری رسومات کا عمل ایسا کہ جیسے کوئی لاش ابھی اپنے سوگواروں کے انتظار میں ہی ہو کہ پھر ہر طرف اندھیرا چھا جائے۔
پوری دنیا، خاص کر یورپ میں پہلے تو ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا تھا کہ کسی گھر کے کسی فرد کی موت واقع ہو جائے، تو اقرباء میں سے کوئی تعزیت کے لیے بھی نہ آ سکے۔
ہاتھ دُور رکھیں: کورونا وائرس کی وبا اور احتیاط
یورپ سمیت دنیا کے بے شمار خطوں میں کورونا وائرس کی بیماری کووِڈ انیس پھیل چکی ہے۔ اِس وبا سے بچاؤ کے لیے ہاتھ صاف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
دروازوں کے ہینڈل غیر محفوظ
تازہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم کئی جگہوں کی سطح پر خود بخود ختم نہیں ہوتی۔ اِن میں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل اہم ہیں۔ دروازے کے ہینڈل پر یہ وائرس لگ جائے تو چار سے پانچ دِن تک زندہ رہتا ہے۔ اِن ہینڈلز کا صاف رکھنا از حد ضروری ہے۔
اپنے دفتر یا کسی کیفے پر کھانا کھاتے ہُوئے بھی احتیاط ضروری ہے۔ اگر کسی نے کھانسی کر دی تو کورونا وائرس کیفے ٹیریا کے برتنوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
کیا ٹیڈی بیئر بھی وائرس رکھ سکتا ہے؟
بظاہر ایسا ممکن نہیں کیونکہ خطرات کا اندازہ لگانے والے جرمن ادارے بی ایف آر کا کہنا ہے کہ ابھی تک کھلونوں سے اِس وائرس کے پھیلنے کے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ بی ایف آر کے مطابق کھلونوں کی غیر ہموار سطحیں وائرس کے پھیلاؤ کے لیے اِمکانی طور پر سازگار نہیں ہوتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
خطوط اور پیکٹس
امریکی تحقیقی ادارے راکی ماؤنٹین لیبارٹری کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم ڈاک سے بھیجی گئی اشیاء پر چوبیس گھنٹے تک پلاسٹک یا کارڈ بورڈ پر زندہ رہ سکتی ہے۔ وائرس کی یہ قسم اسٹین لیس اسٹیل کے برتنوں پر بہتر گھنٹے زندہ رہ سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
پالتُو کُتے بھی وائرس پھیلنے کا باعث ہو سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق پالتُو جانوروں سے وائرس پھیلنے کا امکان قدرے کم ہے۔ تاہم انہوں نے ان خدشات کو نظرانداز بھی نہیں کیا ہے۔ جانوروں میں چوں کہ اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتی، اس لیے وہ بیمار نہیں پڑتے۔ مگر اگر وہ اس وائرس سے متاثر ہوں، تو وہ ممنہ طور پر یہ وائرس ان کے پاخانے کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Tarantino
پھل اور سبزیاں
جرمن ادارے بی ایف آر کے مطابق پھلوں اور سبزیوں سے کورونا وائرس کی افزائش کا اِمکان کسی حد تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اچھی طرح کھانا پکانے سے وائرس کے ختم ہونے کا اِمکان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ حدت سے وائرس ہلاک ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
جمی ہوئی خوراک مفید نہیں
سارس اور میرس اقسام کے وائرس حدت پسند نہیں کرتے اور انہیں سردی میں فروغ ملتا رہا ہے۔ محقیقن کے مطابق منفی بیس ڈگری سینتی گریڈ میں بھی یہ وائرس کم از کم دو برس تک زندہ رہ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance /imageBROKER/J. Tack
جنگلی حیات سے خبردار
چین نے کووڈ اُنیس بیماری کے پھیلاؤ کے تناظر میں مختلف جنگلی حیات کی تجارت اور کھانے پر سخت پابندی عائد کر دی تھی جو ابھی تک برقرار ہے۔ چینی تحقیق سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ کورونا وائرس چمگادڑوں میں پیدا ہوا تھام جب کہ چمگادڑوں سے یہ کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/H. Huan
8 تصاویر1 | 8
کسی کے گلے لگ کر رونا بھی ممکن نہیں
جہاں لوگوں کے گھروں سے نکلنے پر پابندی ہو، وہاں کوئی کسی کے گھر جائے تو کیسے؟ جہاں دکھ مشترک ہونے کے باوجود ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہ ہو، وہاں کوئی کسی کو گلے لگا کر کوئی جھوٹی تسلی بھی بھلا کیسے دے سکتا ہے؟ ایسے میں اظہار تعزیت کا واحد راستہ صرف کوئی ٹیلی فون یا ویڈیو کال ہی رہ جاتی ہے۔
آج کی دنیا کی انسان نے جتنی بھی ترقی کی ہے، اس کے باوجود ایسا بھی بھلا کبھی کہاں تھا کہ ہزاروں لوگ مر رہے ہوں اور رابطے، تعزیت اور اظہار افسوس کا واحد راستہ حقیقی کے بجائے صرف ورچوئل دنیا ہو۔ ان سب حقائق کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ یہی کورونا وائرس اکیلا اس بات کا تعین کر رہا ہے کہ کون زندہ ہے اور کون زندہ نہیں رہا۔
انسانیت کے اس انتہائی مہلک دشمن کو فی الفور شکست دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ سائنسدان نئے کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے لگنے والے مرض کے خلاف کوئی نہ کوئی ویکسین تیار کرنے کے لیے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس اور کووِڈ انیس کو شکست دینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں۔ ایسا ہو بھی جائے گا۔ لیکن کب، یہ بات کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ شاید جلد ہی۔ تب تک کورونا اپنے مہلک ضابطے خود ہی طے کرے گا۔
سِلکے بارٹلِک (مقبول ملک)
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔