چین میں نمونیا بیماری کا باعث بننے والے وائرس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتیں پندرہ سو سے بھی بڑھ گئیں ہیں۔ دنیا بھر میں اس وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد سڑسٹھ ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
اشتہار
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتیں 1523 ہو گئیں ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مزید ایک سو تینتالیس افراد نے دم توڑا۔ چینی سرزمین سے باہر تین افراد کورونا وائرس کی اس نئی قسم سے جسے کووِڈ انیس کا نام دیا گیا ہے، ہلاک ہوئے ہیں۔
عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق دنیا بھر میں اس بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد سڑسٹھ ہزار سے بھی زائد ہو چکی ہے۔ چینی علاقوں ہانگ کانگ میں چھپن اور میکاؤ میں ایسے مریضوں کی تعداد دس ہے۔ جاپان میں ڈھائی سو سے زائد مریض ہیں۔ ان میں ایک کروز شپ کے دو سو اٹھارہ مریض مسافر بھی شامل ہیں۔ یہ بحری جہاز ٹوکیو کے قریب واقع بندرگاہ یوکوہاما میں لنگر انداز ہے۔ یورپ میں سب سے زیادہ مریض جرمنی میں ہیں اور یہ سولہ ہیں۔
اُدھر چینی محکمہٴ صحت کے مجاز ادارے کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں نئے مریضوں کی تشخیص کی شرح میں کمی ہوئی ہے۔ ہسپتالوں میں صرف ڈھائی ہزار سے زائد نئے مریضوں میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی۔ چین میں کووِڈ انیس سے متاثرہ افراد کی تعداد چھیاسٹھ ہزار 492 ہو گئی ہے۔
اس دوران چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے مختلف حلقوں میں وائرس کی وبا پر بحث و تمحیص جاری ہے۔ جمعہ چودہ فروری کو کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے میٹنگ میں اس وبا کو چینی حکومتی عمل کے لیے ایک چیلنج اور بڑے امتحان کے طور پر لیا گیا ہے۔ چینی صدر بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ صدر شی جن پنگ نے اجلاس میں واضح کیا کہ وبا کے پھیلاؤ سے جن کمزوریوں کی نشاندہی ہوئی ہے، اُس تناظر میں اب حکومتی نظام کے ایسے کمزور حصوں کو مضبوط اور توانا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
چینی حکومت نے مختلف علاقوں کو الگ تھلگ کیا ہوا ہے تا کہ وائرس کے پھیلاؤ کو قابو کیا جا سکے۔ چینی محکمہٴ صحت کے حکام یہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کووڈ انیس مزید ملکی حصوں میں پھیل سکتا ہے۔ ساٹھ ملین نفوس کے چینی صوبے ہوبے کو سارے ملک سے ایک طرح سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے دارالحکومت بیجنگ میں اب لوگوں نے کام پر لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ چین نے ایتھلیٹکس کی عالمی چیمپیئن شپ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مصر میں ایک بیمار شخص میں کووِڈ انیس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ افریقی براعظم میں پہلا تصدیق شدہ مریض ہے۔ قبل ازیں ایک اور افریقی ملک زیمبیا میں اس وائرس کے پھیلنے کا خدشہ سامنے آ چکا ہے۔ زیمبیا میں چینی کے تعاون سے قائم ہسپتال کے چینی ملازمین میں کھانسی، گلے کی سوزش اور بخار کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں۔
ع ح ⁄ ا ب ا( اے پی، روئٹرز)
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی بعض صنعتیں
چینی شہر ووہان میں کورونا وائرس کی وبا نے کئی صنعتی اداروں کو متاثر کیا ہے۔ بعض اداروں کے لیے یہ وبا منفعت کا باعث بنی ہے اور کئی ایک کو مسائل کا سامنا ہے۔ بعض اس وائرس کو عالمی طلب میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: VLADIMIR MARKOV via REUTERS
جرمن چانسلر ووہان میں
سن 2019 میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ووہان میں ویباسٹو فیکٹری کے بڑے پلانٹ کے دورہ کیا تھا۔ اب یہ کارخانہ بند ہے۔ جرمن ادارے زیمینز کے مطابق اس وبا کے دوران ایکس رے مشینوں کی طلب زیادہ ہونے کا امکان کم ہے اور فوری طور پر کم مدتی کاروباری فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
صفائی ستھرائی اور صفائی ستھرائی
کورونا وائرس کی وبا سے کیمیکل فیکٹریوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ ڈس انفیکشن سیال مادے کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ جراثیم کش پلانٹس کو زیادہ سپلائی کے دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ ادارے زیادہ سے زیادہ ایسے مواد کی سپلائی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
دوکانیں اور ریسٹورانٹس
ووہان میں کے ایف سی اور پیزا ہٹ کے دروازے گاہکوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ سویڈن کے کپڑوں کے اسٹور ایچ اینڈ ایم کی چین بھر میں پینتالیس شاخیں بند کر دی گئی ہیں۔ جینر بنانے لیوائی کے نصف اسٹورز بند کیے جا چکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے بڑے اداروں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی کیونکہ آن لائن بزنس سے ان کو کسی مالی نقصان کا سامنا نہں ہے۔
تصویر: picture-alliancedpa/imaginechina/Y. Xuan
ایڈیڈاس اور نائیکی
کھیلوں کا سامان بنانے والے امریکی ادارے نائیکی کی طرح اُس کے جرمن حریف ایڈیڈاس نے بھی کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد اپنے بیشتر اسٹور بند کر دیے ہیں۔ مختلف دوسرے اسٹورز بھی صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس وائرس کے پھیلاؤ سے ان اداروں کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت خیال کیا جا رہا ہے۔ اشتہاری کاروباری سرگرمیاں بھی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Stringer/Imaginechina
کارساز اداروں کی پریشانی
اس وائرس کی وبا سے چین میں غیرملکی کار ساز اداروں کی پروڈکشن کو شدید مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مختلف کار ساز ادارے اپنی فیکٹریوں کو اگلے ہفتے کھولنے کا سوچ رہے ہیں۔ جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کی چین میں تینتیس فیکٹریاں ہیں اور ادارہ انہیں پیر دس فروری کو کھولنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ گاڑیوں کی پروڈکشن کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔
تصویر: Imago Images/Xinhua
کوئی بھی محفوظ نہیں ہے
مرسیڈیز بنانے والے ادارے ڈائملر کا کہنا ہے کہ وہ اگلے پیر سے اپنی فیکٹری کھول دیں گے۔ فیکٹری کو یہ بھی فکر لاحق ہے کہ کارخانے کے ورکرز گھروں سے نکل بھی سکیں گے کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ کوئی بھی انسانی جان کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ کئی گاڑیوں کو فروخت کرنے والے اداروں کے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ہونڈا کی احتیاط
جاپانی کار ساز ادارے ہونڈا کے فاضل پرزے بنانے والی تین فیکٹریاں ووہان شہر میں ہیں۔ یہ چینی قمری سال کے آغاز سے بند ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ تیرہ فروری تک بند رہیں گے۔ ایک ترجمان کے مطابق یہ واضح نہیں کہ ہونڈا کی پروڈکشن شروع ہو سکے گی کیونکہ مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اضافی سپلائی روانہ کرنے کا امکان نہیں
کورونا وائرس سے بین الاقوامی سپلائی میں رکاوٹوں کا پیدا ہونا یقینی خیال کیا گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال بہت گھمبیر ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی مثال کار انڈسٹری ہے۔ جنوبی کوریائی کار ساز ادارے ہنڈائی نے تو اپنے ملک میں پروڈکشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ چین سے اضافی پرزوں کی سپلائی ممکن نہیں رہی۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ صورت حال ساری دنیا میں پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: Reuters/Aly Song
چینی لوگ بھی محتاط ہو کر دوری اختیار کر رہے ہیں
کورونا وائرس کے اثرات جرمن فیسٹیول پر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میلوں میں شریک ہونے والے چینی شہری وائرس کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں اور اس باعث شرکت سے دوری اختیار کرنے لگے ہیں۔ فرینکفرٹ میں صارفین کے سامان کے بین الاقوامی فیسٹیول ایمبینٹے میں کم چینی افراد کی شرکت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ لفتھانزا سمیت کئی دوسری فضائی کمپنیوں نے وائرس کی وجہ سے چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔
تصویر: Dagmara Jakubczak
جرمنی میں وائرس سے بچاؤ کی تیاری
فرینکفرٹ میں شروع ہونے والے فیسٹیول میں شرکا کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک قرنطینہ یا کوارنٹائن تیار کی گئی ہے تا کہ کسی بھی مہمان میں اس کی موجودگی کی فوری تشخیص کی جا سکے۔ ووہان سے جرمنی کے لیے کوئی براہ راست پرواز نہیں ہے۔ جرمن شہر فرینکفرٹ کے لیے زیادہ تر پروازیں بیجنگ اور ہانگ کانگ سے اڑان بھرتی ہیں۔