کورونا وائرس ہوا کے ذريعے بھی پھیل سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت
13 جولائی 2020
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ نیا کورونا وائرس ہوا میں تیرنے والے ڈروپلٹس کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ اس سے قبل سائنس دانوں نے عالمی ادارے پر تنقید کی تھی کہ وہ عوام کو انتباہ کرنے میں سست روی کا شکار رہا۔
اشتہار
عالمی ادارہ صحت نے تسلیم کیا ہے کہ نیا کورونا وائرس ہوا میں تیرنے والے ڈروپلٹس یا نہایت چھوٹے قطروں کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ اس سے قبل سائنس دانوں کی جانب سے بار بار کہا جا رہا تھا کہ عالمی ادارہ عام افراد کو اس خطرے سے خبردار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا موقف رہا ہے کہ کووِڈ انیس وبا کو خسرے اور ٹی بی کی طرز کی ہوا سے پھیلنے والی بیماری قرار دینے کے لیے ٹھوس ثبوت درکار ہیں۔
امریکا کی کولوراڈو یونیورسٹی سے وابستہ ماہر کیمیا جوز جِمنیز نے ایک کھلا خط شائع کیا تھا، جس میں عالمی ادارہ صحت سے کہا گیا تھا کہ وہ نئے کورونا وائرس کو ہوا سے پھیلنے کی صلاحیت کا حامل قرار دے۔ جِمنیز کے مطابق، ''عالمی ادارہ صحت کا سست ردعمل اس وائرس کے پھیلاؤ کو قابو کرنے کی کوششوں میں سستی کا باعث بھی بن رہا ہے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایسے کسی اعلان کا مطلب ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں کو ان اقدامات کی ہدایات جاری کی جائیں تاکہ وہ ہر طبقے کے افراد پر نئے ضوابط لاگو کریں۔ جمعرات کو اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے اپنے اعلان میں یہ بھی کہا کہ نئے کورونا وائرس کے ہوا سے پھیلنے کے حوالے سے مزید تحقيق کی ضرورت ہے۔
کورونا وائرس کا حامل ڈروپلیٹ ہوا میں کتنی دیر ٹھہر سکتا ہے؟ یہ سوال اصل میں اس پورے معاملے پر اختلاف کی بنیاد ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ چھینکنے یا کھانسنے سے نئے کورونا وائرس کے متاثرہ کسی شخص سے خارج ہونے والے ڈروپلیٹس قریب ایک میٹر تک ہوا میں رہ سکتے ہيں، دوسری جانب بعض سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈروپلیٹ اس سے کہیں زیادہ دور تک ہوا میں رہ سکتے ہیں۔
کورونا وائرس اور ممکنہ سات ماحولیاتی تبدیلیاں
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد لاک ڈاؤن کی صورت حال نے انسانی معاشرت پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ وبا زمین کے ماحول پر بھی انمٹ نقوش ثبت کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
ہوا کی کوالٹی بہتر ہو گئی
دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے صنعتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے والے دھوئیں کے اخراج میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج بھی کم ہو چکا ہے۔ اس باعث ہوا کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم
کووِڈ انیس کی وبا نے اقتصادی معمولات میں بندش پیدا کر رکھی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ صرف چین میں اس گیس کے اخراج میں پچیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی عارضی ہے۔
وائرس کی وبا نے انسانوں کو گھروں میں محدود کر رکھا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں شہروں کے قریب رہنے والی جنگلی حیات کے مزے ہو گئے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے اور پارکس میں مختلف قسم کے پرندے اور زمین کے اندر رہنے جانور اطمینان کے ساتھ پھرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Bernhardt
جنگلی حیات کی تجارت کا معاملہ
ماحول پسندوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ کووِڈ انیس کی وبا کے پھیلنے سے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے اقوام سنجیدگی دکھائیں گے۔ قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس کی وبا چینی شہر ووہان سے کسے جنگلی جانور کی فروخت سے پھیلی تھی۔ ایسی تجارت کرنے والوں کے خلاف اجتماعی کریک ڈاؤن بہت مثبت ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lalit
آبی گزر گاہیں بھی شفاف ہو گئیں
اٹلی میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد کیے گئے لاک ڈاؤن کے چند روز بعد ہی وینس کی آبی گزرگاہیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں۔ ان شہری نہروں میں صاف نیلے پانی کو دیکھنا مقامی لوگوں کا خواب بن گیا تھا جو اس وبا نے پورا کر دیا۔ اسی طرح پہاڑی ندیاں بھی صاف پانی کی گزرگاہیں بن چکی ہیں۔
تصویر: Reuterts/M. Silvestri
پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ
کورونا وائرس کی وبا کا ماحول پر جو شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے وہ ڈسپوزایبل پلاسٹک یعنی صرف ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہے۔ کلینیکس اور ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے ڈسپوزایبل دستانے اب شاپنگ مارکیٹوں میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P.Pleul
ماحولیاتی بحران نظرانداز
کووِڈ انیس کی وبا کے تیزی سے پھیلنے پر حکومتوں نے ہنگامی حالات کے پیش نظر ماحولیاتی آلودگی کے بحران کو پسِ پُشت ڈال دیا تھا۔ ماحول پسندوں نے واضح کیا ہے کہ وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں اور اہم فیصلوں کے نفاذ میں تاخیر بھی زمین کے مکینوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس پہلے ہی اگلے برس تک ملتوی ہو چکی ہے۔
تصویر: DW/C. Bleiker
7 تصاویر1 | 7
بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر نیا کورونا وائرس خسرے یا ٹی بی کی طرح ہوا سے پھیلنے والا ہوتا، تو دنیا بھر میں اس کا پھیلاؤ کہیں زیادہ ہوتا۔
محققین کہہ رہے ہیں کہ بند مقامات یا پرہجوم جگہوں پر جہاں سماجی فاصلے کے ضوابط کا درست انداز سے خیال نہ رکھا جائے، وہاں یہ وائرس ہوا سے پھیل سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کسی ایسے بند مقام پر جہاں وینٹی لیشن کا نظام اچھا نہ ہوا، وہاں بھی یہ وائرس ہوا کے ذریعے پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔