دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت وباء کے سبب دوگنی، آکسفیم
17 جنوری 2022
دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت میں کورونا وباء کے دوران بھی غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور عالمی سطح پر غربت اور سماجی عدم مساوات میں مزید اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
اشتہار
برطانوی فلاحی تنظیم آکسفیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے۔ آکسفیم کے مطابق دنیا کے دس امیر ترین افراد کی مجموعی دولت سات سو بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر ایک اعشاریہ پانچ ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
ڈاووس میں عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس سے قبل شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق، جہاں دنیا کے دس امیر ترین ارب پتی افراد کی دولت تقریباً دگنی ہو گئی ہے، وہیں غربت میں رہنے والے افراد کے لیے مشکلات بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور مزید ایک سو ساٹھ ملین سے زائد افراد غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
'معاشی تشدد کے باعث بڑھتی تفریق‘
عالمی سطح پر غربت کے خلاف سرگرم تنظیم آکسفیم کی رپورٹ میں بڑھتے اقتصادی، صنفی اور نسلی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ دنیا کے 'ممالک میں بڑھتی تفریق‘ کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مصنفین کے مطابق یہ اتفاقی طور پر نہیں ہوا بلکہ یہ ایک انتخاب ہے، ''معاشی تشدد اس وقت ہوتا ہے، جب پالیسی کا انتخاب سب سے امیر اور طاقتور لوگوں کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس سے ہم سب کا، غریب ترین افراد، خواتین اور لڑکیوں سمیت نسلی امتیاز سے متاثر ہونے والے گروپس کا خاص طور پر نقصان ہوتا ہے۔‘‘
آکسفیم انٹرنیشنل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر گابریئلا بچر کے بقول، ''کووڈ انیس کی وباء نے لالچ کے محرکات واضح کر دیے ہیں، جس میں سیاسی اور معاشی مواقع شامل ہیں۔ اس وجہ سے انتہائی عدم مساوات معاشی تشدد کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔‘‘
زکر برگ اور گیٹس کی دولت میں اضافہ
رپورٹ کے مصنفین نے دنیا بھر کی حکومتوں سے بین الاقوامی کمپنیوں اور امیر ترین افراد پر زیادہ ٹیکس لگانے کی اپیل کی ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر ویکسین کی تقسیم بھی زیادہ مساوی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مزدور اور مالک کا يکساں دشمن، کورونا
کورونا کی عالمی وبا نے تمام شعبوں کو منفی طور پر متاثر کيا ہے مگر سب سے پريشان کن امر غربت ميں اضافہ ہے۔ اس تصويری گيلری ميں ديکھيے کہ متاثرين کی تعداد کتنی ہے اور وہ کيسے متاثر ہوئے ہيں۔
تصویر: DW/P.N. Tewari
دس کروڑ اضافی افراد غربت کی لکير سے نيچے چلے گئے
کورونا کی عالمی وبا کے دور ميں ملازمت کے مواقع ميں کمی، کام کاج کے محدود اوقات، اجرتوں ميں کٹوتی اور ديگر کئی وجوہات کی بنا پر دنيا بھر ميں اضافی دس کروڑ افراد غربت کی لکير سے نيچے چلے گئے ہيں۔ يہ انکشاف اقوام متحدہ نے اپنی تازہ رپورٹ ميں کيا ہے، جو بدھ دو جون کو جاری کی گئی۔
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS
نوکريوں کا فقدان
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن (ILO) نے اپنی ايک حاليہ رپورٹ ميں يہ انکشاف کيا تھا کہ اس سال کے اختتام پر وبا کی وجہ سے ملازمت کے مواقع پچھتر ملين کم ہوں گے۔ يعنی اگر وبا نہ ہوتی، تو سن 2021 کے اختتام پر پچھتر ملين ملازمتيں زيادہ ہوتيں۔ مزيد يہ کہ اب بھی اس سال مزيد ملازمت کے تيئیس ملين مواقع کم ہو سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/Yonhap
بے روزگاری ميں بھی اضافہ
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2019 کے اختتام پر دنيا بھر ميں بے روزگار افراد کی تعداد 187 ملين تھی، جو اگلے سال يعنی سن 2022 کے اختتام پر 205 ملين ہو گی۔ اس ادارے نے تنبيہ کی ہے کہ حقيقی صورتحال سرکاری اعداد و شمار سے کہيں بدتر ہو سکتی ہے۔ يہ تصوير لاس اينجلس کے ايک مرکز کی ہے، جہاں بے روزگار افراد امدادی رقوم کے ليے درخواستيں جمع کرا رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. J. Sanchez
ان گنت مواقع ضائع
گزشتہ برس يعنی سن 2020 ميں دنيا بھر ميں کام کاج کے گھنٹوں ميں 8.8 فيصد کی کمی نوٹ کی گئی، جو 255 ملين فل ٹائم ملازمت کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/D. Angerer
بڑھتی ہوئی غربت
ملازمت اور آمدنی ميں کمی کی وجہ سے 108 ملين مزيد افراد غربت کی لکير سے نيچے چلے گئے، جس کا مطلب ہے کہ تين ڈالر بيس سينٹ کے برابر مقامی رقوم سے بھی کم ميں ان کا روزانہ کا گزر بسر چل رہا ہے۔ تصوير ميں جنوبی افريقی شہريوں کا ايک گروپ احتجاج کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/D. Lloyd
غير رسمی سيکٹر، سب سے زيادہ متاثرہ
دنيا بھر ميں لگ بھگ دو بلين افراد غير رسمی سيکٹر سے منسلک ہيں۔ ايسی ملازمتوں ميں ويسے ہی تحفظ اور امداد کم ہوتی ہے اور نتيجتاً ان سيکٹرز ميں کام کرنے والے افراد کو تباہ کن نتائج کا سامنا ہے۔ تصوير بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ہے، جہاں چند نابالغ بچے کام کاج کا سامان ليے چل رہے ہيں۔
تصویر: AP
عورتيں، مردوں سے زيادہ تکليف ميں
رپورٹ ميں اس طرف سے توجہ دلائی گئی ہے کہ عورتيں مردوں کے مقابلے ميں زيادہ متاثر ہوئی ہيں۔ ان پر بچوں کی گھروں پر ديکھ بھال، اسکول وغيرہ کی ذمہ دارياں بڑھ گئی ہيں۔
تصویر: DW/P.N. Tewari
7 تصاویر1 | 7
دنیا کے امیر ترین افراد کی امریکی جریدے 'فوربس‘ کی تازہ ترین فہرست میں ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک ایلن مسک، ایمیزون کے جیف بیزوس، گوگل کے بانی لیری پیجز اور سرگئی برن، فیس بک کے بانی مارک زکربرگ، مائیکروسافٹ کے سابق سی ای او بل گیٹس اور اسٹیو بالمر، اوریکل کے سابق سی ای او لیری ایلیسن، امریکی انویسٹر وارن بفے اور فرانسیسی لگژری گروپ ایل وی ایم ایچ کے سربراہ بیرنہارڈ آرنالٹ شامل ہیں۔
ع آ / ا ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات کرنے والے ممالک میں
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد فلاح و بہبود میں صرف کر دیتے ہیں جس کے باعث پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
مجموعی قومی پیداوار کا ایک فیصد
’سٹینفورڈ سوشل اِنووویشن ریویو‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان خیرات کرنے والے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو دنیا کے امیر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ برطانیہ، جہاں شہری مجموعی قومی پیداوار کا 1.3 فیصد خیرات کرتے ہیں، کینیڈا میں شہری 1.2 فیصد خیرات کرتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات
’پاکستان سینٹر فار پھلنتھروپی‘ کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری سالانہ دو ارب ڈالر مالیت کے برابر عطیات دیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر اشیاء یا رقم اداروں کے بجائے مستحق افراد کو براہ راست دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم
اس ریسرچ کے مطابق زیادہ تر دی جانی والی رقم کی مالیت کم ہوتی ہے مگر وہ باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ یہ امداد زیادہ تر مستحق افرادکو دی جاتی ہے۔ ان افراد تک اداروں کی نسبت پہنچنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Beenish Ahmed
الی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو
اداروں کو دی جانے والی مالی امداد زیادہ تر مساجد اور مدرسوں کو دی جاتی ہے۔ لوگوں کے گھروں میں جا کر پیسہ جمع کرنے اور محلوں چندے کے لیے ڈبوں کے رکھے جانے سے یہ ادارے زیادہ رقم جمع کر لیتے ہیں۔
تصویر: Imago
کم بھروسہ
پاکستانی عوام کا ایک طبقہ اس خوف سے کہ کہیں ان کی دی ہوئی رقم ضائع نہ ہو جائے، عام فلاحی تنظیموں کو کم دیتے ہیں اور زیادہ مستحق غریب افراد کو رقم یا اشیاء عطیہ کرتے ہیں۔
تصویر: Imago
دولت کا ہونا
پاکستان میں صاحب حیثیت افراد نہ صرف اپنے قریبی مستحق افراد کی مدد کرتے ہیں بلکہ ان کی دولت سے خیراتی اداروں کی بھی مالی مدد کی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مالی طور پر خوش حال افراد کے پاس خیراتی اداروں کے بارے میں معلومات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور وہ بعض اوقات ان خیراتی اداروں سے منسلک بھی ہوتے ہیں۔
تصویر: AP
نوے فیصد خیرات براہ راست مستحق افراد
بلوچستان میں جہاں مالی اعتبار سے درمیانے اور نچلے درجے کے افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں نوے فیصد خیرات اداروں اور تنظمیوں کے بجائے براہ راست مستحق افراد کو دی جاتی ہے۔