کورونا کا علاج کرنے والے ہسپتال میں آتش زدگی، 82 ہلاک
25 اپریل 2021
عراقی دارالحکومت بغداد کے ایک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں آگ لگنے کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 82 تک پہنچ گئی ہے۔ اس ہسپتال میں کووڈ انیس میں مبتلا مریضوں کا علاج کیا جا رہا تھا۔
اشتہار
عراقی وزارت داخلہ کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ آج اتوار 25 اپریل کو علی الصبح بغداد کے ایک ہسپتال میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 82 تک پہنچ گئی ہے۔ قبل ازیں مرنے والوں کی تعداد 27 بتائی گئی تھی۔
طبی حکام کے مطابق ابن الخطیب نامی ہسپتال میں یہ آگ وہاں اسٹور کیے گئے آکسیجن کے سیلنڈرز میں دھماکے کی وجہ سے لگی۔ امدادی کارکنوں کے مطابق 90 کے قریب افراد کو بچا لیا گیا۔
طبی حکام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں کووڈ انیس سے متاثرہ 30 مریض وینٹیلیٹر پر تھے۔ جس وقت اس کئی منزلہ عمارت میں آگ لگی اس وقت وہاں طبی عملے کے علاوہ مریضوں کے رشتہ دار بھی وہاں موجود تھے۔
عراقی سول ڈیفنس کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس ہسپتال میں آگ سے بچاؤ کا نظام موجود نہیں تھا اور ساتھ ہی اس کی چھتوں پر لگی فالس سیلنگ نے آگ کو تیزی سے پھیلنے میں مدد دی۔ بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر مریضوں کا انتقال یا تو وینیٹی لیٹر سے ہٹا کر انہیں دوسری جگہ منقتل کرنے کی کوشش کے دوران ہوا یا پھر وہ دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔
بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں میں کم از کم 28 افراد ایسے تھے جو کووڈ انیس کے سبب وینٹیلٹر پر تھے۔ عراقی وزارت داخلہ کے مطابق اس آگ کے سبب زخمی ہونے والوں کی تعداد 110 ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگ بجھانے والا عملہ آگ پر قابو پانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے جبکہ مریض اور ان کے رشتہ دار وہاں سے نکلنے کی کوششوں میں ہیں۔
عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے اس واقعے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی ملک میں تین روزہ سوگ کا بھی اعلان کیا ہے۔ ملکی پارلیمان نے پیر 26 اپریل کو ہونے والا اجلاس اس سانحے کے نام کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔