1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا کا کوئی مذہب نہیں 

7 اپریل 2020

نئے کورونا وائرس کا کسی مذہب، فرقے، رنگ، نسل، سیاسی نظریے یا فلسفیانہ مکتب فکر سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک ایسی عالمی وبا ہے، جو جنس و عمر دیکھے بغیر ہی حملہ آور ہو گی۔ 

تصویر: picture-alliance/AP/E. Morenatti


تمام مذاہب کی طرح اسلامی تعلیمات میں بھی یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ قدرتی آفات، وبائیں اور مصائب اللہ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔ ان مشکلات کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں ؟ ان کی تشریح مختلف طریقوں سے کی جاتی ہیں لیکن اس صورتحال میں ایک بات اٹل ہے کہ اگر معجزہ نہ ہو تو ان مصائب کی زد میں آنے والا کوئی شخص بچ نہیں سکتا۔ 
مسلم دنیا میں ایک بڑا حلقہ نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا کو بھی "عذاب الہی" قرار دے رہا ہے۔ اعتدال پسند مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اب شدت پسند "اسلامک اسٹیٹ " اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے پراپیگنڈہ ونگز نے بھی کووڈ انیس کے پھیلاؤ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے یہی نظریات پیش کیے ہیں۔ 
لیکن ان دونوں حلقوں کی اس بارے میں تشریح میں فرق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگجو گروہ جب یہ بات کرتے ہیں کہ نیا کورونا وائرس "اللہ کے ایک چھوٹے سے سپاہی" کی صورت میں نمودار ہوا ہے اور یہ صرف امریکا اور مغربی ممالک کے لیے ہی "عذاب" ہے، تو ان کا محرک اپنے انتہا پسندانہ نظریات کا پرچار ہوتا ہے۔ 
تمام باشعور لوگ یہ جانتے ہیں کہ جب کوئی بم پھٹتا ہے تو وہ مذہب پوچھے بغیر ہی لوگوں کی جان لے لیتا ہے اور جب کوئی عالمی وبا پھوٹتی ہے تو وہ فرقہ و نظریہ جانے بغیر ہی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ 
زیادہ طویل وقت نہیں گزرا جب ایک صدی قبل سن انیس سو اٹھارہ میں ہسپانوی فلو کی عالمی وبا پھوٹی تھی تو اس وقت بھی ابتدائی طور پر لوگوں نے احتیاطی تدابیر سے زیادہ مذہب، فرقہ بندی، رنگ و نسل اور جغرافیائی حدود پر اپنی توجہ مبذول کی۔ تاہم جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ وبائیں احتیاطی تدابیر سے ہی ختم ہو سکتی ہیں۔ صرف عبادات و مناجات سے نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہبی لوگوں کو اپنے اعتقادات پر عمل کرتے ہوئے فریضوں کی ادائیگی سے روکا نہیں جا سکتا۔ احتیاطی تدابیر کے باوجود تب دو سال کے عرصے میں ہی ہسپانوی فلو نے دنیا بھر میں کم از کم پچاس ملین افراد کی جان لے لی۔ 
سوشل میڈیا پر کچھ حلقے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نیا کورونا وائرس دراصل مغربی ممالک کی ایک سازش ہے تاکہ اس کو بہانہ بنا کر لوگوں کو مساجد جانے اور دیگر دینی فرائض کی ادائیگی سے روک دیا جائے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ 
اس عالمی وبا کی وجہ سے مغربی ممالک میں بھی سخت پاببدیاں عائد کی گئی ہیں اور تمام قسم کی مشترکہ مذہبی یا سماجی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ مسیحیوں کے مقدس ترین مقام ویٹی کن کو عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ کلیسا اور یہودیوں کی عبادت گاہیں عارضی طور پر بند ہیں۔ مقصد اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ 
اپریل میں متعدد بڑے مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے اہم مذہبی تہواروں کو منانا تھا۔ تاہم اب وہ یا تو منسوخ کیے جا چکے ہیں یا انتہائی سادگی سے منایئں جایئں گے۔ ان میں مسیحیوں کا تہوار ایسٹر، یہودیوں کی عید فسح، ہندووں کا اہم دن "راما نومی" اور سکھوں کا تہوار "ویساکھی" (بیساکھی) بھی شامل ہیں۔ 
اسی طرح اپریل کے اوخر میں مسلمانوں کا اہم مقدس ماہ رمضان بھی شروع ہو رہا ہے۔ جس طرح دیگر مذاہب کے ماننے والے زیادہ تر افراد اس عالمی وبا سے نمٹنے کی خاطر احتیاط برت رہے ہیں، ویسا ہی پاکستانی مسلمانوں کو بھی کرنا چاہیے۔ کسی انتہا پسندانہ پراپیگنڈے میں آئے بغیر اس مشکل وقت میں اپنے مذہبی فرائض کو عقلیت پسندی کے ساتھ ادا کریں نا کہ جذباتی انداز میں۔ بے شک دین اسلام کسی کو بھی یہ درس نہیں دیتا کہ وہ بے کار میں اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان مشکل میں ڈال دے۔ 

مسلم دنیا میں ایک بڑا حلقہ نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا کو بھی "عذاب الہی" قرار دے رہا ہے، عاطف بلوچتصویر: DW/P. Henriksen
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں