کورونا کی مشکلات: کیا کاروباری برادری کا رویہ مایوس کن ہے؟
2 اپریل 2020
واضح رہے کہ بھارت کے مشہور سرمایہ دار مکیش امبانی کی طرف سے بھارتی حکومت کو فنڈز دینے اور کورونا کی وباء کی وجہ سے اسپتال کل کی تعمیر کے اعلان کے بعد پاکستان کے کئی حلقوں میں اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر کیوں ملک کا تاجر و صنعت کار طبقہ ایک ایسے موقع پر عوام الناس کی مدد کے لیے آگے نہیں آرہا جب ملک میں پندرہ ملین سے زائد افراد کے سر پر فاقہ کشی کے خوفناک سائے منڈ لارہے ہیں۔ کئی افراد نے سوشل میڈیا پر ملک ریاض اور میاں منشا سمیت ملک کے کئی معروف کاروباری فیملی کے افراد کی تصویریں لگا کر یہ سوال کیا ہے کہ یہ لوگ کہاں غائب ہیں اور یہ بھارتی کاروباری افراد کی کب تقلید کریں گے؟
پیر کو وزیر اعظم عمران خان نے بھی فنڈ کی اپیل تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ چندہ دینے والے افراد کے ساتھ ٹیکسوں کے معاملات میں نرمی برتی جائے گی۔
تاہم ان ساری اپیلوں کے باوجود ابھی تک ملک کا سرمایہ دار طبقہ کھل کر حکومت کی مدد کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی اس نے رفاحی و فلاحی اداروں کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے ایک ذمہ دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں تاجروں، صنعت کاروں یا امیر لوگوں کی طرف سے اب تک کوئی فنڈ نہیں ملا ہے۔ عام افراد کی طرف سے بھی فنڈ میں کمی ہوئی ہے کیونکہ ملک میں لوک ڈاؤن ہے۔‘‘
ذرائع کا کہنا ہے حکومتی حلقوں کی طرف سے بھی اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا،''حال ہی میں ایک وزیر نےاس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں سرمایہ داروں کی طرف سے حکومت کو کوئی فنڈ نہیں دیا جارہا۔‘‘
مزدور تنظیموں سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ سرمایہ داروں نے نہ صرف حکومت کو کوئی فنڈ نہیں دیا بلکہ وہ ملازمین کی تنخواہیں بھی نہیں ادا کر رہے۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سکریٹری جنرل ناصر منصور نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خود ان سیٹھوں نے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو نہیں نکالیں گے اور تنخواہیں وقت پر دیں گے۔ لیکن اس کے باوجود وہ بڑے پیمانے پر مزدوروں کو نکال رہے ہیں اور ان کو تنخواہیں بھی ادا نہیں کی جارہی۔ جو سرمایہ دار اسپتالوں اور لیبارٹریز کے مالک ہیں وہ حکومت سے فری میں ماسک لے رہے ہیں اور عوام کو مہنگے ماسک بھی بیچ رہے ہیں اور کورونا کے ٹیسٹ کے لیے بھی بھاری رقم بٹور رہے ہیں۔‘‘
ناصر منصور کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال انتہائی مایوس کن اور تکلیف دہ ہے۔''ڈاکو بھی ایسے مواقعوں پر لوٹنا بند کردیتے ہیں۔ چور بھی ایسے موقعوں پر چوری نہیں کرتے لیکن ہمارے ہاں تو سیٹھ دینےکے بجائے خود حکومت سے بیل آؤٹ پیکیجز مانگ رہے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان میں صنعت کاروں اور تاجروں کئی تنظیمں بنی ہوئی ہیں جو اپنے مطالبات کے لیے مظاہرے بھی کرتی ہیں اور حکومت سے مراعات حاصل کرنےکے لیے اجتماعی طور پر لابنگ بھی کرتی ہیں۔ تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ سرمایہ دار طبقے نے عوام کی مدد کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ پاکستان کی مرکزی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کےسابق نائب صدر سلیم مانڈوی والا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مجموعی طور پر بزنس کلاس نے اپنا کردار ادا نہیں کیا، جو افسوس ناک بات ہے، ''لیکن کچھ لوگ انفرادی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ہماری فیملی دس ہزار ماسک اور دو ہزار کورونا ٹیسٹ کٹس حکومت کو دے رہی ہے۔ جب کہ ہم پی پی ای بھی آڈر کر رہے ہیں اور جلد ہی وہ طبی عملے کو دی جائے گی۔ تو انفرادی طور پر لوگ کام کر رہے ہیں لیکن اجتماعی طور پر ایسا دیکھنے کو نہیں مل رہا۔‘‘
خود پی ٹی آئی کے حلقوں میں بھی اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پارٹی کے سینیر رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے نہ صرف سرمایہ دار عوام کی مدد نہیں کر رہے بلکہ خود عوامی نمائندے بھی ایسا کرنے سے گریزاں ہیں،''افسوس کی بات ہے کہ جو کاروباری افراد انتخابات کے دوران مختلف جماعتوں کے عوامی نمائندوں کی بیک وقت مالی مدد کرتے ہیں، وہ عوام کی مدد کرنے سے گریز کر رہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ تقریباﹰ تمام عوامی نمائندے پیسے والے ہیں،''ان کے اثاثوں کی فہرست اٹھا کر دیکھیں ان میں کوئی غریب نہیں ہے تو کیا یہ چھ مہینے یا سال کی تنخواہیں غریب عوام کے لیے وقف نہیں کر سکتے۔ تو یہ افسوس کی بات ہے کہ نہ تاجر برادری آگے آرہی اور نہ عوامی نمائندے۔‘‘
تاہم کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ صنعت کارو تاجر عوام کی مدد کر رہے ہیں، لیکن وہ اس کی تشہیر نہیں کر رہے۔ معروف صنعت کار احمد چنائے کا کہنا ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ کاروباری افراد عوام کی مدد نہیں کر رہے،''میں ذاتی طور پر ایسے افراد کو جانتا ہوں، جنہوں نے ایک ایک ایک لاکھ افراد کو راشن دیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں ہزاروں کی تعداد میں فلاحی ادارے ہیں، ان کو چندہ حکومت نہیں بلکہ یہ ہی کاروباری افراد دے رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو کاروباری افراد چندہ نہیں دیتے تو وہ دوسرا معاملہ ہے،''دیکھیں حکومت اور کاروباری برادری میں اعتماد کا فقدان ہے۔ اس لیے صعنت کار ایسے اداروں کو پیسہ دینا چاہتے ہیں جہاں ان کو اعتماد ہو کہ پیسہ صیح طریقے سے استعمال ہو گا۔ اس کے باوجود بھی ہم حکومت کو بھی فنڈ دے رہے ہیں۔ تاہم یہ فنڈ بہت کم ہے۔ زیادہ فنڈ نجی طور پر دیا جارہا ہے۔‘‘