کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سامنے آنے کے بعد ہفتے کے روز جرمن قانون سازوں اور طبی حکام نے تجویز دی ہے کہ ویکسین کی ایک بوسٹر خوراک لگوا لینی چاہیے۔
اشتہار
ہفتے کی صبح ہیسے صوبے کے سماجی امور کے وزیر کائی کلوزے نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ یہ عین ممکن ہے کہ اومیکرون ویریئنٹ جرمنی پہنچ چکا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی افریقہ سے جرمنی آنے والے مسافروں میں اس نئی اسٹرین سے جڑی متعدد میوٹیشنز سامنے آئی ہیں۔
کلوزے کا کہنا تھا کہ ایک شخص جو فرینکفرٹ ائیرپورٹ کے ذریعے جرمنی میں داخل ہوا، اسے اسی اسٹیرن کے تناظر میں قرنطینہ کیا گیا ہے۔
بوسٹر خوراک لگوائیں
کورونا وائرس کی قسم B.1.1.529 کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اومیکرون کا نام دیا گیا ہے۔ اس قسم کے سامنے آتے ہیں متعدد ممالک کی جانب سے براعظم افریقہ کے جنوبی حصے میں واقع متعدد ممالک کے لیے سفری پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ اسی خطے میں کورونا وائرس کی اس قسم کی پہلی بار تشخیص کی گئی تھی۔
جرمنی میں اس حوالے سے مختلف طرز کی آرا سامنے آ رہی ہے، تاہم ڈاکٹروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اومیکرون وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں، کیوں کہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس کی یہ قسم زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ہے۔
جرمن شہر میونخ سے تعلق رکھنے والی وائرولوجسٹ اُریکے پروٹسر نے ڈوئچلنڈ فُنک ریڈیو سے بات چیت میں کہا کہ اومیکرون کورونا وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی پھیلتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہیے کہ وہ کورونا وائرس کی بوسٹر خوراک لگوائیں۔
جرمنی میں متعدی بیماریوں پر تحقیق کے ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق اب تک جرمنی کی مجموعی آبادی کے دس فیصد کو بوسٹر خوراک لگ چکی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں کووڈ انیس میں اضافہ، کنٹرول میں مشکلات
اس ریجن کے ممالک میں کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ نے شدید آفت مچا رکھی ہے۔ کئی ملکوں کو وبا کنٹرول کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ اس میں سب سے اہم اور بڑی وجہ صحت کا کمزور نظام بھی ہے۔
تصویر: Wisnu Agung Prasetyo/ZUMA/picture alliance
تیسری لہر
جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کو گزشتہ چند ماہ سے کووڈ وبا کی نئی لہر کا سامنا ہے۔ اس علاقے کے ممالک لاؤس اور ویتنام شدید متاثر ہیں۔ سن 2020 میں یہ دونوں ممالک وبا کی شدت سے بچ گئے تھے لیکن اب انہیں بڑھتے انفیکشن کی شدت کا مقابلہ ہے۔ اس ریجن میں سب سے زیادہ متاثر ملک انڈونیشیا ہے۔
تصویر: Agung Fatma Putra/ZUMA/picture alliance
انڈونیشیا میں افراتفری کی صورت حال
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے مسلمان ملک مین کووڈ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تہتر ہزار سے تجاوز کرچُکی ہے۔ وبا کی شروع ہونے کے بعد اٹھائیس لاکھ افراد کو انفیکشن ہو چکا ہے۔ اس وقت اس ملک میں انفیکشن کی شرح بھارت اور برازیل سے زیادہ ہے۔ شہریوں کو آکسیجن سیلنڈرز اور ہسپتالوں میں بیڈز کی کمیابی کا سامنا ہے۔
تصویر: Timur Matahari/AFP/Getty Images
ڈیلٹا پھیلتا ہوا
انڈونیشی نظام صحت اور ہسپتالوں کو کووڈ مریضوں کی غیر معمولی تعداد کا سامنا ہے۔ دو سوستر ملین کی آبادی والے ملک کو مئی میں روزوں کے اختتام اور عید کے موقع پر لاکھوں افراد کے سفر اختیار کرنے کے بعد کورونا انفیکشن کی شدت کا سامنا ہے۔ اس انفیکشن کی لہر میں ڈیلٹا کی افزائش بہت زیادہ ہوئی۔
تصویر: Wisnu Agung Prasetyo/ZUMA/picture alliance
بہتر سے بدتر
سن 2020 میں ویتنامی حکام نے کورونا وائرس کو محدود کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اب وائرس کی ڈیلٹا ویریئنٹ کی افزائش نے صورت حال بدل دی ہے۔ اس ویریئنٹ سے انفیکشن کی شرح بڑھ چکی ہے۔ ویتنامی حکومت نے سارے جنوبی علاقے میں دو ہفتوں کا لاک ڈاؤن لگا رکھا ہے۔ دوسری جانب انفیکشن میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Luke Groves/AP/picture alliance
حکام کے خلاف ناراضی
تھائی مظاہرین وزیر اعظم پرائیتھ چن اوچا کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ کووڈ انیس وبا کو کنٹرول کرنے کے مناسب انتظامات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔ ہسپتالوں پر مریضوں کی بڑھتی تعداد سے دباؤ بھی بڑھ چکا ہے۔ اس ملک میں اپریل کے بعد انفیکشن بڑھنے کے ساتھ ہلاکتیں بھی بڑھی ہیں۔
کورونا وبا سے تھائی سیاحتی صنعت شدید متاثر ہوئی ہے۔ بنکاک اور دیگر صوبوں میں کووڈ انیس کی افزائش جاری ہے اور حکام اس کو قابو کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حکومت مقبول سیاحتی جزیرے پھوکٹ کو دوبارہ کھولنے کی کوشش میں ہے تا کہ ملکی اقتصادیات کو سنبھالا مل سکے۔
تصویر: Sirachai Arunrugstichai/Getty Images
ویکسینیشن سست
تھائی حکومت ویکسین حاصل کرنے میں سست رہی ہے۔ اس ملک میں اہم ملازمین کو رواں برس فروری میں ویکسین لگانی شروع کی گئی۔ جون سے بڑے پیمانے پر ویکسین لگانے کی مہم شروع ہوئی۔ اس میں ایسٹرا زینیکا اور چینی سائنو ویک ویکسینز شامل تھیں۔ ویکسین لگانے کا سلسلہ سست اور ناقص قرار دیا گیا ہے۔
تصویر: Soe Zeya Tun/REUTERS
مایوسی میں اقدامات
ملائیشیا کو کووڈ لاک ڈاؤن کی مشکل کا سامنا ہے۔ لوگ مدد کے منفرد طریقے اپنا رہے ہیں۔ ان میں ایک گھر پر سفید جھنڈا لہرا رہا ہے کہ یعنی اس گھر والوں کو مدد درکار ہے۔ سفید جھنڈا لہرانے کو سوشل میڈیا پر بھی تشہیر ملی ہے۔ کووڈ انفیکشن کو کنٹرول کرنے کے لیے ملائیشیا میں یکم جون سے سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو چکا ہے۔
تصویر: Lim Huey Teng/REUTERS
کووڈ اور بغاوت
میانمار میں فوجی بغاوت نے عوام کی ہیلتھ کیئر پالیسی کو درہم برہم کر دیا ہے۔ کئی ڈاکٹروں نے اپوزیشن کی حمایت میں ہسپتالوں میں نوکری جاری رکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ متنبہ کر چکی ہے کہ یہ ملک وائرس پھیلانے والا سب سے تیز رفتار ملک بن سکتا ہے۔ میانمار میں انفیکشن کی شرح زیادہ اور ویکسین لگانے کی رفتار بہت سست ہے۔
تصویر: Santosh Krl/ZUMA/picture alliance
وائرس کے خلاف مدافعت ایک دور کا خواب
جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کی طرح فلپائن کو بھی ویکسین کی محدود فراہمی کا سامنا ہے۔ صحت کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ملک میں شاید سب سے آخر میں کورونا وائرس کے خلاف مدافعتی دوا پہنچے گی۔ ویکسینیشن بہت سست ہے اور اس رفتار سے اگلے دو سالوں میں پچھتر فیصد آبادی کو ویکسین لگانے کا امکان ہے۔
تصویر: Dante Diosina Jr/AA/picture alliance
10 تصاویر1 | 10
کیا کورونا وائرس کی نئی قسم زیادہ خطرناک ہے؟
وائرولوجسٹ پروٹسر کے مطابق کووِڈ انیس کے خلاف لگوائی گئی ویکسین اومیکرون کے خلاف بھی فعال ہو گی تاہم جسم میں موجود اینٹی باڈیز اتنی نہیں ہوں گی کہ وہ اس وائرس کو شکست دے سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جنہیں کورونا ویکسین کی دوسری خوراک لگوائے اب کچھ وقت گزر چکا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ ایک بوسٹر خوراک لگوا لیں۔ یوں جسم میں اینٹی باڈیز کی تعداد ایسی ہو گی جو اس وائرس سے بہتر انداز سے لڑ سکے۔