کورونا کی وبا کی شدت کم، جرمن سیاحتی شعبہ متحرک ہوتا ہوا
25 جولائی 2020
کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے جرمنی کی سیاحتی صنعت ابھی تک شدید خسارے میں ہے۔ اس وبا میں کمی کے بعد پہلا کروز شپ سمندر میں اپنے تعطیلاتی سفر پر روانہ ہو گیا ہے۔
اشتہار
جرمن کروز شِپ 'مائن شِف سوائی‘ یا 'مائی شِپ ٹو‘ شمالی جرمنی کے بندرگاہی شہر ہیمبرگ سے اپنے تین روزہ سیاحتی سفر پر بحیرہ شمالی کے لیے روانہ ہو گیا ہے۔ یہ تفریحی بحری جہاز جرمنی کی بہت بڑی سیاحتی کمپنی 'ٹُوئی‘ کی ملکیت ہے۔
مایورکا جرمن سیاحوں کا پسندیدہ جزیرہ کیوں؟
کورونا وائرس کے اس بحران کے دور میں بھی ہسپانوی جزیرہ مایورکا سیاحت کے اعتبار سے موسم گرما کے سرفہرست یورپی مقامات میں سے ایک ہے۔ جرمن باشندے بحیرہ روم میں واقع اس جزیرے کو بہت پسند کرتے ہیں۔ لیکن اس محبت کی وجہ کیا ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Reiner
اس سے بہتر جگہ بھلا کون سی ہو سکتی ہے؟
مایورکا کی ساحلی پٹی کم از کم پانچ سو کلومیٹر طویل ہے۔ یہ علاقہ متعدد چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ یہ کالا فورمینتور کی تصویر ہے، یہاں خزاں تک موسم گرم ہی رہتا ہے۔ اس وجہ سے یہ سیاحوں کے پسندیدہ مقامات میں سے ایک ہے۔ مایورکا کے جزیرے پر ہر معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاحوں کے لیے رہائش دستیاب ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/D. Schoenen
ابتدا کیسے ہوئی؟
1833ء میں بارسلونا سے مایورکا کے مابین فیری سروس شروع ہوئی۔ اس وقت کم ہی لوگ اس جزیرے پر جاتے تھے۔ مصنف جارج سینڈ اور پیانو نواز فریڈیرک شوپیں نے 1838-39 کا موسم سرما والڈیموسا کے ایک راہب خانے میں گزارا۔ یہ تصویر اسی پہاڑی گاؤں کی ہے۔ یہاں قیام کے دوران جارج سینڈ نے ایک ناول بھی لکھا، جس میں اس جزیرے کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس کے شائع ہونے کے بعد بڑی تعداد میں سیاحوں نے مایورکا کا رخ کرنا شروع کیا۔
بیسویں صدی کے آغاز پر یہاں زیادہ تر سیاح ہسپانوی علاقوں اور برطانیہ سے آتے تھے۔ وہ یہاں فطرت اور رومان تلاش کرتے تھے۔ مایورکا کے کئی ساحل آج بھی مکمل طور پر اپنی اصل حالت میں ہیں، یعنی وہاں کوئی تعمیرات نہیں کی گئیں۔ 1935ء میں یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد پچاس ہزار تھی، 1950ء میں ایک لاکھ جبکہ 1960ء میں دس لاکھ سیاحوں نے اس جزیرے کا رخ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Schmidt
ساحلی علاقوں کی سیاحت میں اضافہ
1960ء کی دہائی میں سیاحت کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا۔ ساحلوں کے قریب بڑے بڑے ہوٹل تعمیر کیے گئے اور بڑی بڑی سیاحتی کمپنیوں نے ان میں سرمایہ کاری کی۔ جرمن شہریوں کو چھٹیاں گزارنے کے لیے ایسے مقامات کی تلاش تھی، جو سستے بھی ہوں اور جہاں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔ مایورکا کے ہسپانوی جزیرے پر انہیں یہ سب کچھ میسر آ گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Margais
پالما: ثقافت اور ساحلوں والا شہر
پالما مایورکا کا صدر مقام ہے۔ تصویر میں موجود یہ 400 سال پرانا کلیسا اس شہر کی پہچان ہے اور سب سے زیادہ سیاح اسی کو دیکھنے آتے ہیں۔ کورونا سے قبل یہاں کے چار لاکھ باسی سیاحوں کی بڑی تعداد سے پریشان تھے اور خاص طور پر سیاحوں سے بھرے ہوئے ان دیو ہیکل تفریحی بحری جہازوں سے، جو اس شہر کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ 2019ء میں ستر لاکھ غیر ملکی سیاحوں نے مایورکا میں کم از کم ایک رات گزاری تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZB/J. Kalaene
اپنی طرف بلاتے ہوئے پہاڑ
پر خطر کھیلوں اور چیلنجز کو پسند کرنے والے ترامنتانا کے پہاڑی سلسلے کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں پر چند چوٹیوں کی اونچائی ایک ہزار میٹر تک ہے، جو اس جزیرے کے شمال سے مغربی حصے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان پہاڑوں پر سائیکل سواروں اور پیدل چلنے والوں کے لیے حیرت انگیز راستے موجود ہیں۔
پانی سے مایورکا کو تسخیر کرنا ایک انتہائی منفرد تجربہ ہے۔ جو لوگ کوئی پرتعیش کشتی کرائے پر نہیں لے سکتے، وہ کم از کم کالا فیگوئیرا کی یہ بندرگاہ یا پورٹ سولیئر گھوم پھر سکتے ہیں۔ ماضی میں مایورکوئن کے پہاڑوں میں اگائے جانے والے سنگترے اسی بندرگاہ کے راستے بحری جہازوں پر فرانس بھیجے جاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Tack
فِنکا، سیاحوں کے بڑے ہوٹلوں کا متبادل
سیاحوں کے رش، شور شرابے اور بھرے ہوئے ساحلوں سے دور بھاگنے والے افراد ’فِنکا‘ کرائے پر لے سکتے ہیں۔ ’فِنکا‘ دور دراز کے علاقوں میں بنی دیہی قیام گاہوں کو کہتے ہیں۔ مایورکا پر بنائی گئی ’فِنکاز‘ میں تمام تر سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ مایورکا پر ہر کسی کے لیے تفریح کا سامان موجود ہے کیونکہ ہر سال جو چالیس لاکھ جرمن سیاح چھٹیاں گزارنے کے لیے اس جزیرے کا رخ کرتے ہیں، وہ بہرحال کوئی غلطی تو نہیں کرتے!
بحیرہ شمالی کے لیے روانہ ہوتے وقت اس کروز شپ پر تقریباً 1200 مسافر سوار تھے۔
اس تعطیلاتی بحری جہاز پر انتیس سو مہمانوں کی قیام کی گنجائش ہے مگر کورونا وائرس کی وبا کے نقطہ عروج کے بعد اس پہلے سفر کے لیے اتنی بڑی تعداد میں مہمانوں نے بکنگ کروائی ہی نہیں تھی۔
اس لیے یہ کروز شپ بارہ سو مسافروں کے ساتھ ہی اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔
'مائن شِف سوائی‘ پر سوار یہ سیاح صرف موجودہ ویک اینڈ ہی اسی کروز شپ پر گزاریں گے اور اس سفر کے دوران یہ جہاز کسی بھی ملک کی کسی بندرگاہ پر لنگر انداز نہیں ہو گا۔
تین روزہ سیاحتی سفر کے بعد یہ بحری جہاز پیر ستائیس جولائی کی صبح واپس ہیمبرگ کی بندرگاہ پر پہنچنے گا۔
اس سفر کے دوران تمام مسافروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپس میں سماجی فاصلوں کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ تمام مسافروں نے یہ سفر شروع کرنے سے پہلے اپنی صحت سے متعلق تفصیلی سوالنامے بھی پر کیے تھے۔ اس سفر کے دوران کھانے کے وقت مسافروں کو ڈائننگ ہالز میں 'بُوفے‘ کی میزوں خود کھانا لینے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ اس کے لیے کروز شپ کا عملہ ان کی مدد کرے گا۔
بحری جہازوں کے ذریعے سیاحتی سفر سے متعلق انتظامی امور کے ماہر پروفیسر الیکسِس پاپاتھانیسیس کے مطابق اس طرح کی کروز شپنگ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں ایک بہتر عملی حل ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ سیاحتی صنعت سے منسلک کمپنیاں اور افراد اپنے اپنے کاروبار کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ پاپاتھانیسیس کا کہنا ہے کہ فی الوقت جلد بازی کی ضرورت نہیں اور بتدریج اس شعبے کے لیے حفظانِ صحت کے زیادہ مؤثر اصول و ضوابط منظم انداز میں مرتب کر لیے جائیں گے۔
کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تقریباﹰ پوری دنیا میں سیاحتی شعبہ اس وقت دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس شعبے میں کروز شپنگ سیکٹر خاص طور پر انتہائی زیادہ مالی پریشانیوں اور مسائل کا شکار ہے۔ اب لیکن کروز شپنگ کرنے والے ادارے تحریک پکڑ رہے ہیں اور زیادہ گرم جوشی سے سیاحتی پروگرام ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا کے عروج پر کم از کم پچپن تعطیلاتی بحری جہازوں میں مسافروں اور عملے کے ارکان کے کووِڈ انیس کا شکار ہو جانے کی رپورٹیں سامنے آئی تھیں۔ ان میں سے ایک بحری جہاز 'ڈائمنڈ پرنسیس‘ پر تو چالیس سیاح اسی وائرس کے باعث انتقال بھی کر گئے تھے۔ امریکا میں وفاقی محکمہٴ صحت نے کروز شپنگ پر تاحال پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ع ح / م م (ڈی پی اے، روئٹرز)
خالی شہر، ویران سیاحتی مقامات
کورونا وائرس کی وبا سے کئی ملکوں میں ہُو کا عالم طاری ہے۔ شہروں میں ویرانی چھائی ہے اور لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ سنسان سیاحتی مقامات کی بھی اپنی ایک کشش ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
مارین پلاٹز، میونخ
جرمن شہر میونخ کے ٹاؤن ہال کے سامنے مارین پلاٹز اجڑا ہوا اوپن ایئر تھیئٹر کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ اِکا دُکا افراد اس مقام پر کھڑے ہو کر ٹاؤن ہال کے واچ ٹاور کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ واچ ٹاور کے گھڑیال کی گھنٹیاں شائقین شوق سے سنا کرتے تھے۔ فی الحال مارین پلاٹز میں پولیس اہلکار ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
اسپینش اسٹیپس، روم
تاریخی شہر روم کو آفاقی شہر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا مشہور سیاحتی مقام اسپینش اسٹیپس اور بارکاچا فاؤنٹین بھی آج کل سیاحوں کے بغیر ہیں۔ بارکاچا فوارہ سن 1598 کے سیلاب کی نشانی ہے۔ فوارے کا پانی چل رہا ہے لیکن سیڑھیوں پر سیاح موجود نہیں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
لا رمبلا، بارسلونا
ابھی کچھ ہی ہفتوں کی بات ہے کہ ہسپانوی شہر بارسلونا کے مقام لا رمبلا کی تصویر میں بہت سے سیاح نظر آیا کرتے تھے لیکن اب یہ جگہ ویران ہے۔ صرف تھوڑے سے کبوتر مہمانوں کی راہ دیکھتے پھرتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رکھا ہے لیکن یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔ وائرس کی وبا سے اسپین میں پندرہزارسے زائد لوگ دم توڑ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
شانزے لیزے، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں شانزے لیزے معروف کاروباری شاہراہ ہے۔ یہ پیرس کی شہ رگ تصور کی جاتی ہے۔ اب اس سڑک پر صرف چند موٹر گاڑیاں ہیں اور آرچ دے ٹری اُمف یا فتح کی محراب ویران دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Tang Ji
ٹاور برج، لندن
لندن شہر سے گزرتے دریائے ٹیمز پر واقع مشہور پُل معمول کے مقابلے میں بہت پرسکون ہے۔ سیاح موجود نہیں اور دریا میں سے کشتیاں بھی غائب ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا سے پُل کے دونوں اطراف لوگ دکھائی نہیں دہتے۔ لوگ احتیاطً گھروں سے باہر نہیں نکل رہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
حاجیہ صوفیہ، استنبول
ترک شہر استنبول کا اہم ترین سیاحتی مرکز حاجیہ صوفیہ اور اس کے سامنے کا کھلا دالان۔ یہ ہمیشہ سیاحوں اور راہ گیروں سے بھرا ہوتا تھا۔ وائرس کی ایسی وبا پھیلی ہے کہ نہ سیاح ہیں اور نہ ہی مقامی باشندے۔ لوگوں کی عدم موجودگی نے منظر بدل دیا ہے۔ ارد گرد کی سبھی عمارتیں اب صاف نظر آتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Xu Suhui
تورسکایا اسٹریٹ، ماسکو
روسی دارالحکومت ماسکو کی کھلی شاہراہ تورسکایا فوجی پریڈ کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔ وائرس کی وبا کے ایام میں اب سن 2020 کے موسم بہار کے شروع ہونے پر اس شاہراہ پر جراثیم کش اسپرے کرنے والے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/G. Sysoev
اہرامِ فراعین، الجیزہ قاہرہ
فراعینِ مصر کے مقبرے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے سیاحوں کے بغیر ہیں۔ ان کو اب صرف جراثیم کش اسپرے والے باقاعدگی سے دیکھنے جاتے ہیں۔ اہرام مصر یقینی طور پر تاریخ کے ایک مختلف بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ مصر کو بھی کووڈ انیس کی مہلک وبا کا سامنا ہے۔ اس ملک میں وائرس کی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Hamdy
خانہ کعبہ، مکہ
سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کا سب سے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ بھی زائرین کے بغیر ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد اس مقام کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ یہ مقدس مقام بھی دو اپریل سے کرفیو میں ہے۔ اس میں ہر وقت ہزاروں عبادت گزار موجود ہوا کرتے تھے۔ وائرس سے بچاؤ کے محفوظ لباس پہنے افراد اس مقام اور جامع مسجد میں جراثیم کش اسپرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Nabil
تاج محل، آگرہ
تاریخی اور ثقافتی مقامات میں تاج محل کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ محبت کی یہ یادگار اب دیکھنے والوں کی منتظر ہے۔ کووڈ انیس کی وبا کے پھیلنے کے بعد بھارت کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ تاج محل کو فوجیوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے تا کہ شائقین اس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اس مقام کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ گھر میں رہنے میں بہتری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
ٹائم اسکوائر، نیو یارک سٹی
نیو یارک سٹی کا مرکزی مقام کہلانے والا ٹائم اسکوائر کورونا وائرس کی وبا سے پوری طرح اُجاڑ دکھائی دیتا ہے۔ دوکانیں بند اور شاپنگ مالز خریداروں کو ترس رہے ہیں۔ سڑکیں ویران اور فٹ پاتھ راہگیروں کے بغیر ہیں۔ ہر وقت جاگنے والا شہر اس وقت سویا ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/T. Stolyarova
بوربن اسٹریٹ، نیو اورلیئنز
سیاحوں سے رات گئے تک بھری رہنے والی بوربن اسٹریٹ کو بھی وائرس کی نظر لگ چکی ہے۔ امریکا ریاست لُوئزیانا کا ’بِگ ایزی‘ کہلانے والے اس شہر کی نائٹ لائف بہت مقبول تھی لیکن اب کورونا وائرس کی وبا نے رات بھر جاری رہنے والی سرگرمیوں کو پوری طرح منجمد کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Herbert
برازیل: کوپا کابانا، ریو ڈی جنیرو
برازیلی بندرگاہی اور سیاحتی شہر ریو ڈی جنیرو میں بھی کووڈ انیس کی بیماری نے ہُو کا عالم طاری کر رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کے شہر پر کسی بھوت نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کا ساحلی علاقہ کوپا کابانا کبھی قہقہوں اور کھیلتی زندگی سے عبارت تھا اب وہاں صرف بحر اوقیانوس کی موجیں ساحل سے ٹکراتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/F. Teixeira
اوپرا ہاؤس، سڈنی
آسٹریلوی شہر سڈنی کا اوپرا ہاؤس دنیا میں اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے مقبول ہے۔ اس اوپرا ہاؤس کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں مقیم رہیں۔ اوپرا ہاؤس کے دروازے تاحکم ثانی بند کر دیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aap/B. De Marchi
عظیم دیوارِ چین
کورونا وائرس کی بیماری نے چین میں جنم لیا تھا۔ وبا کے شدید ترین دور میں سارے چین میں لاک ڈاؤن تھا۔ رواں برس مارچ کے اختتام پر عجوبہٴ روزگار تاریخی دیوارِ چین کو ملکی سیاحوں کے لیے کھولا گیا۔ یہ تصویر دیوار کو کھولنے کے بعد کی ہے جو ساری دنیا کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اچھے دن قریب ہیں۔