عالمی مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو سست کرنے اور اس پر قابو پانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔
اشتہار
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ 'پالیسی ٹریکر' نامی ایک تجزیے میں دنیا بھر کے ممالک میں کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کی پالیسیوں کی تفصیل بتائی گئی ہے۔ اس ٹریکر میں پاکستان کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ پاکستان نے ایران سے پاکستان پہنچنے والے تین ہزار سے زیادہ زائرین کو قرنطینہ میں رکھا، پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدوں کو بند کر دیا، بین الاقوامی سفری پابندیاں عائد کیں، اسکولوں کو بند کیا، ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا اور لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے 23 مارچ سے پاکستانی فوج کی مدد بھی حاصل کی۔
اس کے علاوہ پاکستانی حکومت نے 1.2 ٹریلین پاکستانی روپے کے پیکج کا بھی اعلان کیا۔ اس پیکج کے تحت حکومت 200 ارب روپے مزدوروں یا دیہاڑی پر کام کرنے والے افراد پر خرچ کرے گی، 150 ارب روپے احساس پروگرام کے تحت لوگوں میں بانٹے جائیں گے، 100 ارب ٹیکس ری فنڈ کی مد میں دیے جائیں گے، ایک سو ارب روپے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کمپنیوں کو دیے جائیں گے اور اس کے علاوہ یوٹیلی اسٹورز، گندم کی خریداری، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں کمی وغیرہ جیسے دیگر اقدامات کے ذریعے بھی ریلیف فراہم کی جائے گی۔ پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود کم کر کے اسے گیارہ فیصد کر دیا ہے۔ مرکزی بینک نے قرضہ اسکیم کا بھی اعلان کیا ہے جس سے کاروباری کمپنیاں، ہسپتال اور طبی ادارے مستفید ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں اقتصادی امور کے ماہرین کی رائے میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کے اقدامات ناکافی ہیں۔ اسی موضوع پر ایک روز قبل پاکستانی اقتصادی ماہر ثاقب شیرانی نے ڈی دبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان کو اقتصادی پالیسی کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوگا اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کر کے انہیں یہ بتانا ہو گا کہ ان غیر معمولی حالات میں حکومت نہ ٹیکس اکٹھا کر سکتی ہے اور نہ ہی بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر سکتی ہے اور معیشت میں تیزی لانے کے لیے اسٹیٹ بینک کو شرح سود کم کرنا ہوگا۔
پاک ایران سرحد پر قرنطینہ مراکز کی صورتحال
پاک ایران سرحدی علاقے تفتان میں امیگریشن گیٹ کے نزدیک قائم قرنطینہ مراکز میں 15سو سے زائد ایسے پاکستان زائرین اور دیگر شہریوں کو رکھا گیا ہے، جو ان ایرانی مقامات سے واپس لوٹے ہیں، جو کورونا وائرس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
شکایات
پاکستانی شیعہ زائرین کی رہائش کے لیے مختص پاکستان ہاؤس میں بھی ایران سے واپس آنے والے سینکڑوں زائرین موجود ہیں۔ اس قرنطینہ سینٹر میں رکھے گئے افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان ہاؤس میں تمام زائرین کو احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر رکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ قرنطینہ مراکز میں ڈبلیو ایچ او کے مطلوبہ معیار کے مطابق حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
کنٹینرز
پاک ایران سرحد پر قائم کیےگئے قرنطینہ مراکزمیں کنٹینرز بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں ایسے افراد کو رکھا جا رہا ہے، جن پرکورونا وائرس سے متاثر ہونے کا شبہ ظاہرکیا گیا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سرجیکل ماسک اور پاسپورٹ
ایران سے پاکستان واپس آنے والے زائرین کو ملک واپسی پر سرحد پر ہی سرجیکل ماسک فراہم کیے جا رہے ہیں۔ امیگریشن کے بعد انتظامیہ زائرین سے ان کے پاسپورٹ لے لیتی ہیں۔ یہ پاسپورٹ 14 روزہ قرنطینہ دورانیہ پورا ہونے کے بعد مسافروں کو واپس کیے جاتے ہیں۔ چند یوم قبل کوئٹہ کے شیخ زید اسپتال میں قائم آئسولیشن وارڈ میں تعینات طبی عملے کو جوسرجیکل ماسک فراہم کیے گئے تھے، وہ بھی زائدالمیعاد تھے۔
تصویر: DW/G. Kakar
دیکھ بھال
حکام کے مطابق تفتان میں قرنطینہ میں رکھے گئے تمام افراد کو تین وقت کا کھانا اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مسافروں کو فراہم کی جانے والی تمام اشیاء پی ڈی ایم اے( صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کی جانب سے فراہم کی جارہی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
پاکستانی ووہان
تفتان کو پاکستان کا ووہان قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے، جو تفتان سے ہوکر مختلف شہروں میں گئے تھے۔ کوئٹہ میں اب تک 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ بلوچستان کے متعدد قرنطینہ مراکز سے ایسے افراد فرار بھی ہوئے ہیں، جن پر کورونا وائرس سے متاثرہ ہونے کا خدشہ تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
قرنطینہ میں پانچ ہزار افراد
پاک ایران سرحدی شہر تفتان میں اب تک ایران کے مختلف حصوں سے پاکستان آنے والے پانچ ہزار زائرین کو قرنطینہ کیا گیا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے این ڈی ایم اے نے صوبہ بلوچستان کو بارہ سو خیمے، ترپال، کمبل جبکہ وفاقی حکومت نے صرف تین سو ٹیسٹنگ کٹس فراہم کی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
تنقید
بلوچستان میں قائم قرنطینہ مراکز پر حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نیوز بریفنگ کے دوران موقف اختیار کیا تھا کہ بلوچستان کے قرنطینہ مراکز سے واپس آنے والے افراد میں کورونا وائرس اس لیے پھیلا کیونکہ وہاں رکھے گئے افراد کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کی رائے
ماہرین کے بقول بلوچستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی کوششوں کے دوران ان کی رائے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قرنطینہ مراکز میں تعینات ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے نے شکایت کی کہ انہیں پرنسل پروٹیکشن کٹس بھی تاحال فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ اس دوران حکومت بلوچستان نے مرکزی حکومت سے پاک ایران اور پاک افغان سرحد کے غیر قانونی نقل وحمل ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کرنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
چمن میں بھی قرنطینہ مراکز
پاک افغان سرحد چمن میں بھی افغانستان سے آنے والے افراد کے لیے ایک کھلے میدان میں قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا ہے۔ اس سینٹر میں مسافروں کے لیے سینکڑوں خیمے لگائے گئے ہیں۔