بھارتی پارلیمان کا اجلاس پیر 14ستمبر سے شروع ہوا جو یکم اکتوبر تک يعنی مسلسل 18دن جاری رہے گا۔ تاہم کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے اس مرتبہ کا سيشن سابقہ اجلاسوں کے مقابلے ميں ذرا مختلف دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اشتہار
کورونا وائرس کی وبا، چین کے ساتھ سرحد پر کشیدگی اور ملکی معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے تناظر ميں شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کے لیے کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن میں سے بعض پر اپوزیشن کو شدید اعتراضات ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت ميں پارليمان کی خصوصی نشستوں کو شناخت کے ليے موسم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور اسی سلسلے ميں رواں اجلاس کا نام مون سون سيشن ہے۔
پارلیمان کے اندر داخل ہونے سے قبل اراکین نے ڈیجیٹل طریقے سے حاضری درج کرائی۔ اراکین کے جسم کا درجہ حرارت جانچنے کے لیے تھرمل گن اور تھرمل اسکینر استعمال کیے جا رہے ہیں، مختلف مقامات پر ٹچ لیس سینیٹائزر نصب ہیں اور ضرورت پڑنے پر ایمرجنسی میڈیکل ٹیم اور ایمبولنسوں کو تیار رکھا گیا ہے۔ سوشل ڈسٹینسنگ يا سماجی سطح پر فاصلہ برقرار رکھنے کی شرط کی وجہ سے چند ارکان پارلیمان کو مرکزی ہال میں جبکہ ديگر کو مہمانوں کی گیلری میں بٹھایا گیا۔ تمام اراکین کے سامنے شیشے کی شیلڈز لگی ہوئی ہيں۔
سترہ ارکان پارليمان کورونا ميں مبتلا
پارلیمان کا اجلاس شروع ہونے سے قبل اراکین پارلیمان کا کورونا ٹیسٹ کرایا گیا، جس میں ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے سترہ اراکین کے کورونا ٹيسٹ مثبت آئے۔ ان میں سے بارہ کا تعلق حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی سے، دو کا وائی آر ایس کانگریس سے ہے جبکہ شیو سینا، ڈی ایم کے اور آر ایل پی کے ایک ایک رکن ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔
کورونا سے اب تک سات وفاقی وزراء سمیت دو درجن کے قریب اراکین پارلیمان متاثر ہو چکے ہیں-تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh
نئے ضوابط کے تحت اراکین کی رپورٹ منفی آنے کی ہی صورت ميں انہیں پارلیمان کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ حکومتی ہدایات کے مطابق پينسٹھ برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی اجتماعی میٹنگز میں شرکت پر پابندی ہے۔ ایسے میں یہ عور طلب معاملہ ہے کہ راجیہ سبھا کے ان 97 اراکین کا کیا ہوگا، جن کی عمریں پينسٹھ برس سے زیادہ ہیں اور ان ميں سے بھی بيس کی عمريں اسی برس سے زیادہ ہيں۔ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ اور سابق وزیر دفاع اے کے انٹونی بھی ان میں شامل ہیں۔
کورونا سے اب تک سات وفاقی وزراء سمیت دو درجن کے قریب اراکین پارلیمان متاثر ہو چکے ہیں اور ایک رکن کی موت بھی ہو چکی ہے۔ جب کہ ریاستی اسمبلیوں کے درجنوں اراکین کورونا سے متاثر ہيں اور کئی ہلاک ہو چکے ہیں۔
وقفہ سوال ختم کرنے پر سوال
حکومت نے پارلیمان کے اجلاس کے دوران 'وقفہ سوالات‘ کو ختم کر دیا ہے۔ اس وقفے کے دوران کوئی بھی رکن کسی بھی موضوع پر سوالات پوچھ سکتا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کا جواب دینے کے لیے ضروری معلومات کے حصول میں کئی افراد کو کام کرنا پڑتا تھا اور کورونا کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے اس لیے وقفہ سوالات کو ختم کیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن نے الزام لگایا کہ حکومت دراصل بعض اہم سوالات کا جواب دینے سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے اور ایسا کرنا جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ تاہم پارلیمانی امور کے وزیر نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بحث سے بھاگ نہیں رہی ہے، یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے اور حکومت سے سوالات پوچھنے کے اور بھی مختلف طریقے ہیں۔
اٹھارہ دنوں تک چلنے والے اس مون سون اجلاس کے دوران ہفتہ اور اتوار کے روز بھی ایوان کی کارروائی جاری رہے گی۔ اس اجلاس میں حکومت بائيس مختلف بل پیش کرنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن نے ان میں سے کم از کم چار کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا ہے۔
برلن کا رائش ٹاگ، جمہوریت کا گھر
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Weber
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/H. Hattendorf
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔