کورونا کے شدید بیمار فرانسیسی مریض جرمن ہسپتالوں میں منتقل
7 نومبر 2020
یورپی براعظم کو کورونا وائرس کی بہت شدید ہو جانے والی دوسری لہر کا سامنا ہے۔ جرمنی کی طرح فرانس میں بھی اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اشتہار
فرانس میں جمعہ چھ نومبر کو کورونا وائرس کی لپیٹ میں آنے والوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ فرانسیسی مریضوں کی بڑھتی تعداد کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر جرمن ہسپتالوں نے تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے شدید علیل فرانسیسی مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا شروع کر دی ہیں۔ فرانس میں کووڈ انیس کے شکار شہریوں کی مجموعی تعداد اب تک سولہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
شدید بیمار فرانسیسی شہری
فرانس سے جرمنی ایسے مریض منتقل کیے جا رہے ہیں، جنہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ جرمن ہسپتالوں میں منتقل کیے جانے والے ان مریضوں کا تعلق فرانسیسی سرحدی علاقے گراں ایسٹ (Grand Est) سے ہے۔
اس علاقے سے مریضوں کو جرمن شہروں زاربرُوکن اور فوئلک لِنگن کے ہسپتالوں میں پہنچایا گیا ہے۔ جرمنی کی جنوب مغربی وفاقی ریاست زارلینڈ کے ہسپتالوں میں یہ مریض جمعرات اور جمعے کے روز لائے گئے۔
کورونا وائرس کی لپیٹ میں آنے والی معروف شخصیات
ہالی وُوڈ سے بالی وُوڈ تک، کئی اہم فلمی شخصیات کورونا وائرس کی لپیٹ میں آچکی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی نامی سیاستدانوں کو بھی کووڈ انیس کی بیماری نے اپنی گرفت میں لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/E. Chesnokova
رابرٹ پیٹینسن
چونتیس سالہ اداکار رابرٹ پیٹینسن نے فلم ’ٹوائلائٹ‘ میں ایک ایسے خونخوار مردے کا کردار ادا کیا تھا، جو رات کو باہر نکلتا تھا۔ وہ ’بیٹمین‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھے کہ ان کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا۔ فلم بیٹمین میں پہلے بین ایفلیک کو کاسٹ کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/E. Chesnokova
ڈوائن جانسن: دا راک
امریکا کے مشہور ریسلر یا پہلوان ’دا راک‘ کا اصلی نام ڈوائن جانسن ہے۔ وہ ہالی وُوڈ کی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ ان کو بیوی اور دو بیٹیوں سمیت کورونا وائرس نے گرفت میں لے لیا تھا۔ اب سبھی اس بیماری کے چنگل سے نکل آئے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو تلقین کی ہے کہ ماسک پہن کر رہیں کیونکہ اسی میں بہتری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Shotwell
فٹ بالر نیمار
مشہور و معروف برازیلی فٹ بالر نیمار، فرانسیسی فٹ بال کلب پیرس سینٹ جرمین کی جانب سے کھیلتے ہیں۔ کلب کے تین کھلاڑیوں کے دو ستمبر سن 2020 کو کورونا ٹیسٹ مثبت آئے تھے۔ کلب کے کھلاڑیوں میں اس بیماری کی وبا پھوٹنے کو ٹیم کے ہسپانوی تفریحی جزیرے ابیٹسا کے دورے کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ نیمار کے ساتھ ان کے بیٹے کا بھی کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Ramos
سلویو برلسکونی
تراسی سالہ اطالوی سیاستدان اور سابق وزیر اعظم سلویو برلسکونی کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ اس کا اعلان ان کی سیاسی جماعت نے دو ستمبر سن 2020 کو کیا۔ ان کے دو بیٹے اور تیس سالہ خاتون دوست کے بھی ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ وہ سارڈینا کی ساحلی پٹی پر چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Vojinovic
یُوسین بولٹ
تیز رفتار دوڑنے کے مقابلے میں لیجنڈ کا درجہ رکھنے والے یوسین بولٹ بھی کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ ان کا وائرس ٹیسٹ ان کی چونتیسویں سالگرہ کی آؤٹ ڈور پارٹی کے بعد سامنے آیا۔ اس پارٹی میں مہمانوں نے ماسک نہیں پہن رکھے تھے۔ وہ ایک سو میٹر اور دو سو میٹر کی دوڑ میں ریکارڈ رکھتے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Childs
انٹونیو بینڈراس
ہسپانوی اداکار انٹونیو بینڈراس کو اپنی ساٹھویں سالگرہ پر حیران کن انداز میں کورونا وائرس کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ انہیں اپنی سالگرہ کا دن آئسولیشن یا قرنطینہ میں گزارنا پڑا۔ رواں برس کے مہینے اگست کے وسط میں ان کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ اب وہ صحتیاب ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Captital Pictures
امیتابھ بچن اور خاندان
بھارت فلمی صنعت بالی وُوڈ کے لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن اور ان کا تقریباً سارا خاندان ہی جولائی میں کورونا وائرس کی گرفت میں آ گیا تھا۔ ان کے بیٹے ابھیشیک بچن، اداکارہ بہو اور سابقہ مس ورلڈ ایشوریا رائے کے ساتھ پوتی آرادیا کے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر، ان کو ہسپتال داخل کر دیا گیا تھا۔ اب سبھی رُو بہ صحت ہو چکے ہیں۔ ان کی بیوی جیا بچن کا ٹیسٹ منفی آیا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Jaiswal
جائیر بولسونارو
برازیل کے صدر جائیر بولسونارو کورونا وائرس کی وبا کو محض نزلہ زکام قرار دیتے رہے ہیں اور پھر جولائی سن 2020 میں ان کو کورونا وائرس نے آن دبوچا۔ انہیں کورونا وبا اور دیگر احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کرنے پر ملک اور بیرون ملک شدید تنقید کا سامنا رہا۔ ان کے بیٹے اور بیوی کے بھی ٹیسٹ مثبت آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Peres
ٹام ہینکس
امریکی فلمی صنعت ہالی وُوڈ کے مشہور اداکار ٹام ہینکس اور ان کی گلوکارہ و اداکارہ بیوی ریٹا ولسن کے کورونا ٹیسٹ بھی مثبت آ چکے ہیں۔ وہ اس وبا کی لپیٹ میں آنے والی ابتدائی مشہور شخصیات میں سے تھے۔ ہینکس اور ان کی بیوی کو آسٹریلیا کے دورے کے دوران وائرس نے جکڑ لیا تھا۔ اب وہ صحت یاب ہو کر واپس امریکا لوٹ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP/Invision/J. Strauss
صوفی گریگوئر ٹروڈو
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ صوفی ٹروڈو کا ٹیسٹ برطانوی دورہ مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچنے پر مثبت آیا تھا۔ بیوی کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد کینیڈین وزیر اعظم نے خود کو دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ کر لیا تھا۔
تصویر: Reuters/P. Doyle
بورس جانسن
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھی رواں برس مارچ میں کورونا کی گرفت میں آ گئے تھے۔ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں ہنگامی طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں داخل رہے تھے۔ ہسپتال میں انہیں آکسیجن فراہم کی گئی اور معالجین مسلسل ان کی علالت پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Dawson
11 تصاویر1 | 11
اس مناسبت سے فرانسیسی رکن پارلیمان کرسٹوف آریں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ آٹھ مریضوں کو جرمن ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ فرانسیسی علاقے گراں ایسٹ سے کورونا کے مریض پہلی مرتبہ جرمنی منتقل گئے ہیں۔ فرانس میں مختلف ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے شعبوں میں کورونا وائرس کے انتہائی بیمار مریضوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔
فرانس کو اپنے ہاں کورونا وائرس کی وبا کی دوسری لہر کے دوران متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافے کا سامنا ہے۔ جمعرات پانچ نومبر سے جمعہ چھ نومبر تک چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک میں مزید ساٹھ ہزار افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تشخیص ہوئی۔
فرانسیسی محکمہٴ صحت کے مطابق ایک دن میں اس وائرس کی لپیٹ میں آنے والے افراد کی یہ فرانس میں روزانہ بنیادوں پر سب سے بڑی تعداد تھی۔ حکام نے عام شہریوں کے لیے کورونا وائرس کے ٹیسٹوں کی سہولت بھی بڑھا دی ہے۔
اشتہار
مریضوں کی منتقلی
فرانس میں کورونا وائرس کے کیسز بڑھنے سے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش بہت بڑھ گیا ہے۔محکمہٴ صحت کے حکام شدید متاثرہ علاقوں کے ہسپتالوں سے کووڈ انیس کے مریضوں کو دوسرے شہروں کے ہسپتالوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد زیادہ متاثرہ علاقوں کے ہسپتالوں پر اضافی بوجھ کو کم کرنا ہے۔ اسی تناظر میں کئی مریض جرمنی منتقل کیے گئے ہیں۔
رواں برس موسم بہار میں کورونا وائرس کی وبا کی پہلی لہر کے دوران بھی ایک سو تیس فرانسیسی مریضوں کو جرمنی منتقل کیا گیا تھا۔ ان مریضوں کا جرمنی میں علاج اکیس مارچ سے بارہ اپریل کے دوران کیا گیا تھا۔ تب ان فرانسیسی مریضوں کو وفاقی جرمن ریاستوں باڈن ورٹمبرگ، رائن لینڈ پلاٹینیٹ، زار لینڈ اور سیکسنی نے اپنے ہاں قبول کیا تھا۔
مختلف ممالک کے اسکول کورونا سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟
موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں۔ ایسے میں کورونا وائرس کے ایک اور مرتبہ پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ مختلف ممالک کے اسکولوں کے حفاظتی اقدامات پر ایک نظر!
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
تھائی لینڈ: ایک باکس میں کلاس
بنکاک کے واٹ خلونگ توئی اسکول میں پڑھنے والے تقریباﹰ 250 طلبا کلاس کے دوران پلاسٹک ڈبوں میں بیٹھتے ہیں اور انہیں پورا دن اپنے چہرے پر ماسک بھی پہننا پڑتا ہے۔ ہر کلاس روم کے باہر صابن اور پانی رکھا جاتا ہے۔ جب طلبا صبح اسکول پہنچتے ہیں تو ان کا جسمانی درجہ حرارت بھی چیک کیا جاتا ہے۔ اسکول میں جولائی کے بعد سے انفیکشن کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔
تصویر: Getty Images/L. DeCicca
نیوزی لینڈ: کچھ طلبا کے لیے اسکول
دارالحکومت ویلنگٹن کے یہ طلبا خوش ہیں کہ وہ اب بھی اسکول جا سکتے ہیں۔ آکلینڈ میں رہنے والے طلبا اتنے خوش قسمت نہیں۔ یہ ملک تین ماہ تک وائرس سے پاک رہا لیکن 11 اگست کو ملک کے سب سے بڑے اس شہر میں چار نئے کیس سامنے آئے۔ طبی حکام نے شہر کے تمام اسکولوں اور غیر ضروری کاروبار کو بند رکھنے اور شہریوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: Getty Images/H. Hopkins
سویڈن: کوئی خاص اقدامات نہیں
سویڈن میں طلبا اب بھی گرمیوں کی اپنی تعطیلات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ چھٹیوں سے پہلے کی تصویر ہے اور حکومتی پالیسی کو بھی عیاں کرتی ہے۔ دیگر ممالک کے برعکس اسکینڈینیویا کے شہریوں نے کبھی بھی ماسک پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کاروبار، بار، ریستوران اور اسکول سب کچھ کھلا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/TT/J. Gow
جرمنی: دوری اور تنہائی
ڈورٹمنڈ کے پیٹری پرائمری اسکول میں یہ طلبا مثالی طرز عمل کی نمائش کر رہے ہیں۔ جرمنی کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے تمام اسکولوں کی طرح اس اسکول کے بچوں کے لیے بھی ماسک پہننا لازمی ہیں۔ ان کا تعلیمی سال بارہ اگست سے شروع ہو چکا ہے۔ فی الحال ان اقدامات کے نتائج کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Fassbender
مغربی کنارہ: 5 ماہ بعد اسکول واپسی
یروشلم سے 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہیبرون میں بھی اسکول دوبارہ کھل گئے ہیں۔ اس خطے کے طلبا کے لیے بھی چہرے کے ماسک پہننا ضروری ہیں۔ کچھ اسکولوں میں دستانوں کی بھی پابندی ہے۔ فلسطینی علاقوں میں اسکول مارچ کے بعد بند کر دیے گئے تھے جبکہ ہیبرون کورونا وائرس کا مرکز تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Bader
تیونس: مئی سے ماسک لازمی
تیونس میں ہائی اسکول کے طلبا کی اس کلاس نے مئی میں ماسک پہننا شروع کیے تھے۔ آئندہ ہفتوں میں اس شمالی افریقی ملک کے اسکول دوبارہ کھل رہے ہیں اور تمام طلبا کے لیے ماسک ضروری ہیں۔ مارچ میں تیونس کے اسکول بند کر دیے گئے تھے اور بچوں کی آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
بھارت: لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پڑھائی
مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر میں واقع اس اسکول ان بچوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں، جن کی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔ یہاں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے انہیں پڑھایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Waydande
کانگو: درجہ حرارت کی جانچ کے بغیر کوئی کلاس نہیں
کانگو کے دارالحکومت کنشاسا کے متمول مضافاتی علاقے لنگوالا میں حکام طلبا میں کورونا وائرس کے انفیکشن کا خطرہ انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ریورنڈ کم اسکول میں پڑھنے والے ہر طالب علم کو عمارت میں داخل ہونے سے پہلے درجہ حرارت چیک کروانا ہوتا ہے اور چہرے کے ماسک بھی لازمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Mpiana
امریکا: متاثرہ ترین ملک میں پڑھائی
کووڈ انیس کے ممکنہ کیسز کا پتہ لگانے کے لیے ہر امریکی اسکول میں روزانہ درجہ حرارت کی جانچ کی جاتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کی اس ملک کو فوری طور پر ضرورت بھی ہے۔ دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات اب بھی امریکا میں ہو رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Newscom/P. C. James
برازیل: دستانے اور جپھی
ماورا سلوا (بائیں) شہر ریو ڈی جنیرو کی سب سے بڑی کچی آبادی میں واقع ایک سرکاری اسکول کی ٹیچر ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر اپنے طلبا سے ملنے کی کوشش کرتی اور انہیں ایک مرتبہ گلے لگاتی ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے پلاسٹک کے دستانے اور اپر ساتھ رکھے ہوتے ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Olivares
10 تصاویر1 | 10
کورونا سے ہونے والی ہلاکتیں
پانچ سے چھ نومبر تک کووڈ انیس کے مریض چار سو افراد نے فرانس کے مختلف ہسپتالوں میں دم توڑا اور اتنے ہی افراد بزرگ شہریوں کی طبی نگہداشت کے لیے قائم رہائش گاہوں میں انتقال کر گئے۔ ان آٹھ سو ہلاک شدگان کو ہلاکتوں کی روزانہ تعداد میں شمار نہیں کیا گیا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے فرانس کی نیشنل ہیلتھ اتھارٹی کے ذرائع کے توسط سے بتایا ہے کورونا وائرس سے متعلق ڈیٹا جمع کرنے کے عمل میں تکنیکی مسائل موجود ہیں اور اسی لیے مرنے والوں کی حتمی تعداد کا درست تعین مشکل ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ تکنیکی خرابی دور ہو جانے کے بعد جمعہ چھ نومبر کے روز نئے مریضوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے کہیں زیادہ ہو جانے کا قوی امکان ہے۔
ع ح / م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔