کوسوووکی آزادی سے پیدا ہونے والے نئے تنازعے
21 فروری 2008امریکہ اور یورپی یونین کے متعدد ممالک کوسووو کے آزاد ریاستی وجود کو باضابطہ طور پر تسلیم کر چکے ہیں لیکن روس، اسپین، رومانیہ اور قبرص سمیت کئی یورپی ملک کوسوووکی خودمختاری کو تسلیم کرنے سے انکاربھی کر چکے ہیں۔ روس واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ کوسووو کی آزادی کو تسلیم کرناتو درکنار، وہ کوسووو کی جانب سخت ترین پالیسی اختیار کرے گا۔
خود کوسووو کے اندر بھی سرب اقلیتی باشندے موجود ہیں جو البانوی نسل کے باشندوں کی اکثریت والے اس علاقے کی سربیا سے علیحدگی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
سربیا میں جمعرات کے روزتقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد نے کوسووو کی آزادی کے خلاف کئے گئے زبردست احتجاجی مظا ہرے میں حصہ لیا۔ مظاہرین یہ نعرے لگا رہے تھے کہ کوسووو آج بھی سربیا کاحصہ ہے اور یہ کہ اس خطے کا اعلان خودمختاری جعلی آزادی ہے۔ اس حوالے سے سربیا کے کئی شہروں میں پرتشدد واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔ ملکی دارلحکومت بیلغراد میں چند سو مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ بھی کی۔
دوسری طرف یورپی یونین بھی کوسوووکی آزادی کے مسئلے پرپریشان دکھائی دیتی ہے۔ جمعرات کے روز یورپی یونین کے وزراء نے اس بات پر غور کیا کہ کوسووو کی نو آزاد ریاست کو درپیش خطرات سے بچاؤ کے لئے اسے ایک خصوصی سیکیورٹی فورس فراہم کی جائے۔
جرمن وزیر دفاع Franz - Joseph Jung نے اس حوالے سے یورپی یونین کے موجودہ صدر ملک سلووینیہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: "میرے خیال میں ہمیں اب ایک ایسی کوسووو سیکیورٹی فورس کی ضرورت ہے جس کی مدد سے وہاں سلامتی کے ذمے دار ادارے تشکیل پا سکیں اور کوسووو کو اپنی سلامتی کے لئے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی مزید افواج کی ضرورت پیش نہ آئے۔"
پاپائے روم بینے ڈکٹ شانزدہم نے بھی اپیل کی ہے کہ کوسووو کی آزادی کے حوالے سے تمام فریقین مصالحت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ سربیا کے صدر بورس ٹاڈچ رومانیہ کے دورے پر ہیں جہاں وہ اس معاملے میں اپنے حامی اس ملک کی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
کوسووو کی آزادی کوسووار باشندوں کا دیرینہ خواب ضرورتھا مگر دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ مخالف طاقتوں کے نرغے میں گھرا یہ چھوٹاسا نو آزاد ملک یورپ اور امریکہ کی حمایت کے باوجود کتنی آزادی سے قائم رہتا ہے اوریہ نئی ریاست امریکی اور یورپی مفادات کی بجائے خود اپنے عوام کے مفادات کوکس حد تک افضل رکھتی ہے۔