کوسوو اور سربیا کا یورپی یونین سے الحاق خطرے میں ہے، جرمنی
7 اکتوبر 2023
جرمن وزیر خارجہ کے مطابق یورپی یونین میں شمولیت کے لیے مغربی بلقان کے ان پڑوسی ممالک کے تعلقات میں بہتری ناگزیر ہے۔ بلغراد اور پرسٹینا کی حکومتوں کے مابین گزشتہ ماہ پیدا ہونے والی کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئر بوک نے خبردار کیا ہے کہ کوسوو اور سربیا کے مابین کشیدگی مغربی بلقان کے ان ممالک کے یورپی یونین کے ساتھ ممکنہ الحاق کے عمل کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ ان دونوں ممالک کے مابین کشیدگی آئندہ ہفتے برلن پراسس کے سربراہی اجلاس کی تیاری کے لیے وزرائے خارجہ کی میٹنگ پر چھائی ہوئی ہے۔ برلن پراسس جرمنی اور فرانس کی طرف سے چھ مغربی بلقان ممالک کوسوو، سربیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا ہرزیگووینا، شمالی مقدونیہ اور البانیہ کو یورپی یونین کے رکن بننے کی ترغیب دینے کا ایک اقدام ہے۔
بیئر بوک نے جمعہ چھ اکتوبر کو البانیہ کے دارالحکومت ترانہ میں کہا، ''یہ خطے میں ہر کسی کے لیے واضح ہے کہ آپ ایک مضبوط خطہ صرف اسی صورت میں قائم کر سکتے ہیں، جب یہاں سلامتی، آزادی اور پرامن بقائے باہمی قائم ہو۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سکیورٹی چیلنجز کے باوجود وہ یورپی یونین سے الحاق کا عمل تیز ہوتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نےکہا، ''روس کا یوکرین پر حملہ مغربی بلقان کو شامل کرنے کے لیے یورپی یونین کی توسیع کو ایک جغرافیائی سیاسی ضرورت بنا دیتا ہے۔‘‘
کوسوو کے لیے مزید امن فوج
بلغراد اور پرسٹینا کی حکومتوں کے مابین کشیدگی ستمبر کے آخر میں اس وقت بڑھ گئی تھی، جب کوسوو کی پولیس اور خود کوسربیا کی ایک آرتھوڈوکس خانقاہ میں محصور کر لینے والے تقریباً 30 مسلح سربوں کےمابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔
اس واقعے میں کوسوو کا ایک پولیس اہلکار اور تین حملہ آور مارے گئے تھے۔ بئیر بوک نے کہا کہ کوسوو میں نیٹو کی زیر قیادت امن فوج یا کے فور کو مزید تقویت دی جائے گی۔ جرمن وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ وہ اپریل تک مزید فوجی کوسوو بھیجے گی اور یہ فیصلہ حالیہ تشدد سے پہلے کیا گیا تھا۔
ازسرنومذاکرات کا مطالبہ
کوسوو کی وزیر خارجہ ڈونیکا گیروالا شوارز نے کہا کہ مغرب کو تشدد کے بعد سربیا پر نئی پابندیاں عائد کرنی چاہییں۔ انہوں نے جرمن پبلک براڈ کاسٹر زیڈ ڈی ایف سے ایک انٹرویو میں کہا، ''میں وہاں موجود وزراء سے سربیا کی جارحیت کی مذمت اور ٹھوس اقدامات کا فیصلہ کرنے کے لیے واضح موقف کی توقع کرتی ہوں۔ ‘‘ تاہم ان کی جرمن ہم منصب نے سربیا اور کوسوو کے درمیان تازہ مذاکرات کی اپیل کی۔ بیئربوک نے کہا، ''اگرچہ کچھ لوگوں کو یہ سن کر خوشی نہیں ہوگی لیکن اس تنازعے کو حل کرنے کی کلید بلغراد اور پرسٹینا کے پاس ہے۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ کے اس مطالبے کی باز گشت اس خطے میں نیٹو امن فوج کے کمانڈر میجر جنرل انجیلو مائیکل ریسٹو کے بیان میں سنائی دی، جنھوں نے کوسوو اور سربیا سے مذاکرات کی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ ''اشتعال انگیز اور بے نتیجہ بیان بازی سے گریز کریں اور دیرپا سلامتی کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے میں مدد کریں۔‘‘
ش ر/ا ب ا (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی کے بیس برس
سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی کارروائی اقوام متحدہ کی باقاعدہ اجازت کے بغیر چوبیس مارچ سن 1999 کو شروع ہوئی تھی۔ اس عسکری مشن سے سرب فوج کے کوسووو کی البانوی نژاد آبادی پر حملے کنٹرول کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کوسووو کے تنازعے کے ابتدائی اشارے
کوسوو کے تنازعے کی صورت حال سن 1990 کی دہائی میں خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ امن کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد چوبیس مارچ سن1999 کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے سرب فوج کے خلاف اپنے فضائی حملوں آغاز کر دیا۔ یہ حملے گیارہ ہفتوں تک جاری رہے۔
تصویر: Eric Feferberg/AFP/GettyImages
غیر متشدد مزاحمتی تحریک کی ناکامی
سن 1980 کی دہائی میں بلغراد حکومت کی طرف سے البانوی نسلی اقلیت کے ثقافتی حقوق کے تحفظ میں ناکامی کے بعد کوسووو کے عوام نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ کوسووو کے رہنما ابراہیم روگووا کی یہ سیاسی کوشش اس لیے ناکام ہوئی کہ سرب رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ اپنی سوچ میں تبدیلی پر تیار نہیں تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مسلح گوریلا جنگ
حالات پرتشدد ہونے کے بعد کوسووو لبریشن آرمی نے ایک مسلح گوریلا جنگ شروع کر دی۔ اس نے سرب آبادی کے ساتھ ساتھ البانوی نژاد افراد کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سرب دستوں نے ان دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں اس نسلی اقلیت کی ملکیت گھروں اور دکانوں کو نذرآتش کرنا شروع کر دیا۔ ہزار ہا لوگوں جانیں بچاتے ہوئے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
منظم بے دخلی
سربیا کی جنگ شدید تر ہوتی گئی اور اس دوران کوسووو لبریشن آرمی کی طرف سے سخت مزاحمت کے تناظر میں سرب فوجوں نے عام شہریوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ہزارہا ’کوسووار‘ باشندوں کو ریل گاڑیوں اور ٹرکوں کے ذریعے سرحدی علاقوں کی جانب منتقل کر دیا گیا۔ ان کی اکثریت کے پاس اپنی شناختی دستاویزات تک نہیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مذاکرات کی آخری کوشش بھی ناکام
امریکا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور روس نے اس تنازعے کے فریقین کو فروری سن 1999 میں پیرس کے نواحی علاقے ریمبولے میں منعقدہ ایک کانفرنس میں مدعو کیا تاکہ کوسووو کے لیے عبوری خودمختاری کا سمجھوتہ طے پا سکے۔ کوسووو نے اس ڈیل پر رضامندی ظاہر کر دی لیکن سربیا نے کوئی رعایت دینے سے انکار کر دیا تو یہ مذاکرات بھی ناکام ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’انسانیت کے نام پر فوجی مداخلت‘
چوبیس مارچ سن 1999 کو نیٹو نے سربیا کے فوجی اور اسٹریٹیجک مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا تا کہ کوسووو کی البانوی نژاد آبادی کو پرتشدد حملوں سے بچایا جا سکے۔ جرمنی بھی ان حملوں میں شریک تھا۔ مغربی دفاعی اتحاد کی قیام کے بعد کے پچاس برسوں کی تاریخ میں یہ نیٹو کی پہلی جنگ کارروائی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی حمایت نہیں کی تھی اور روس نے نیٹو کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی۔
تصویر: U.S. Navy/Getty Images
بنیادی ڈھانچے کی تباہی
نیٹو کے جنگی طیاروں نے مسلسل اناسی دنوں تک سینتیس ہزار فضائی مشن مکمل کیے۔ سربیا کے اہم مقامات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران رسد کے راستے ختم کرنے کے لیے بے شمار پل اور ریلوے ٹریک تباہ کر دیے گئے۔ سربیا پر بمباری کے علاوہ دو ہزار راکٹ بھی داغے گئے، جس دوران بہت سے عام شہری بھی مارے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پانچیوو کے اوپر زہریلے بادل
بلغراد کے قریبی شہر پانچیوو کی کیمیائی کھاد بنانے والی ایک فیکٹری پر بھی نیٹو کے جنگی طیاروں نے بم برسائے۔ اس حملے کے بعد اس فرٹیلائزر فیکٹری سے انتہائی مضر کیمیائی مادہ دھوئیں کی صورت میں پانچیوو کی فضا میں پھیل گیا۔ سربیا نے نیٹو پر الزام لگایا کہ اس حملے میں کلسٹر بموں کے ساتھ ساتھ افزودہ یورینیم والے ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جنگی پراپیگنڈے کے خلاف بھی جنگ
سربیا کے رہنما سلوبوڈان میلوشیووچ کے پراپیگنڈے کو روکنے کے لیے نیٹو کے جنگی طیاروں کو بلغراد کے ٹیلی وژن اسٹیشن کو بھی نشانہ بنانا پڑا۔ اس حملے سے قبل سربیا کی حکومت کو مطلع بھی کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سولہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط اہداف پر بمباری
نیٹو کی بمباری کے دوران ایک مرتبہ البانوی نژاد مہاجرین کا ایک قافلہ بھی نشانہ بن گیا تھا، جس میں اسی افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح بلغراد میں چینی سفارت خانے پر بھی غلطی سے بم گرنے سے چار افراد کی موت ہوئی۔ اس واقعے کے بعد بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان ایک شدید سفارتی تنازعہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔
تصویر: Joel Robine/AFP/GettyImages
المناک میزانیہ
سلوبوڈان میلوشیووچ کی طرف سے ہتھیار پھینکنے کے ابتدائی پیغام سے ہی خوف و ہراس کے سلسلے میں کمی پیدا ہونے لگی تھی۔ نیٹو نے انیس جون سن 1999 سے بمباری بند کرنے کا عندیہ دے دیا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک اور ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد افراد بےگھر ہو گئے تھے۔ سرب معیشت زوال پذیر تھی اور بیشتر انتظامی ڈھانچے تباہ ہو گئے تھے۔ پھر کوسووو کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں دے دیا گیا۔