1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کولون: ایک بم دھماکے کی تکلیف دہ یادیں

Andrea Grunau / امجد علی9 جون 2014

نو جون 2004ء کو جرمن شہر کولون کے علاقے کوئپ سٹریٹ میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں بائیس افراد زخمی ہو گئے تھے۔ ترک ریستورانوں اور دوکانوں کے مرکز میں یہ دھماکا ایک نیو نازی گروپ NSU کی کارروائی تھا۔

کولون کے کوئپ شٹراسے میں ترک نژاد حجام حسن یلدرم کا ہیئر کٹنگ سیلون، حسن یلدرم دھماکے والے دن بھی اسی طرح گاہکوں کے بال کاٹنے میں مصروف تھا
کولون کے کوئپ شٹراسے میں ترک نژاد حجام حسن یلدرم کا ہیئر کٹنگ سیلون، حسن یلدرم دھماکے والے دن بھی اسی طرح گاہکوں کے بال کاٹنے میں مصروف تھاتصویر: DWAndrea Grunau

ہر سال یہ دن تکلیف دہ یادیں لے کر آتا ہے اور وہ اس لیے بھی کہ برسوں تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ یہ حملہ دہشت گردی نہیں تھا بلکہ کسی جرائم پیشہ گروہ کی کارروائی تھی۔

کولون کے کوئپ شٹراسے نمبر 29 میں 9 جون 2004ء کی سہ پہر چار بجے سے کچھ پہلے ایک مرد نے ایک بائیسکل ترک حجام حسن یلدرم کے ہیئر کٹنگ سیلون کے ساتھ لگا کر کھڑی کی۔ اس بائیسکل کے پیچھے پانچ کلوگرام سے زیادہ بارودی مواد والا ایک بم رکھا تھا، جس میں بڑی تعداد میں کیلیں بھی تھیں۔ حسن یلدرم نے بائیسکل رکھنے والے نوجوان کے ٹوپی کے نیچے سے نظر آنے والے سنہری بالوں کو دیکھ کر سوچا کہ شاید یہ نوجوان بال کٹوانے کے لیے آ رہا ہے لیکن پھر یہ نوجوان تیزی سے وہاں سے غائب ہو گیا۔

بم دھماکے نے ترک ہیئر کٹتگ سیلون اور اُس کے آس پاس کے علاقے میں تباہی مچا دیتصویر: picture-alliance/dpa

اور پھر سہ پہر چار بجے سے کچھ پہلے ریموٹ کنٹرول کی مدد سے یہ بم چلا دیا گیا، جس کے اندر موجود سات سو زیادہ کیل اُس میں سے گولیوں کی طرح نکلے اور اُنہوں نے ہیئر سیلون میں اور اس کے آس پاس تباہی مچا دی۔ ہر طرف دھواں تھا اور شیشے کی بکھری ہوئی کرچیاں۔ یہ محض اتفاق تھا کہ اس دھماکے کے نتیجے میں کوئی شخص ہلاک نہیں ہوا البتہ بائیس افراد زخمی ہو گئے، جن میں سے چار شدید زخمی ہوئے۔

موسم گرما کے اُس دن کوئپ شٹراسے میں رونق بھی بہت تھی۔ اس علاقے میں ترک نژاد شہریوں نے ریستورانوں کے ساتھ ساتھ زیورات اور ملبوسات کی دوکانیں اور ٹریول ایجنسیاں بھی بنا رکھی ہیں اور یہاں سیر و تفریح اور شاپنگ کے لیے شہر بھر کے ہی نہیں بلکہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آیا کرتے ہیں۔

کہیں نومبر 2011ء میں دائیں بازو کے انتہا پسند زیر زمین نیو نازی گروپ NSU کے ارکان اور مبینہ حملہ آوروں اُووے مُنڈ لوس اور اُووے بوئن ہارٹ کی موت کے بعد وہ ویڈیو منظر عام پر آئی، جس میں اس حملے کا اعتراف کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس گروپ کے خلاف فردِ جرم میں کہا گیا کہ ’یہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو ہلاک یا کم از کم زخمی کرنا چاہتے تھے‘۔

تاہم اس دھماکے کے ایک ہی روز بعد اُس وقت کے جرمن وزیر داخلہ اوٹو شیلی نے یہ کہہ دیا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، جن سے یہ پتہ چلتا ہو کہ اس حملے کا کوئی دہشت گردانہ پس منظر تھا۔ یہی کہا گیا کہ یہ جرائم پیشہ عناصر کی کارروائی تھی۔ کسی سیاسی عہدیدار نے نہ تو زخمی ہونے والوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا، نہ ہی کوئی اُن کی عیادت کو گیا اور کوئپ سٹریٹ آنے والے کئی مہینوں تک گاہکوں سے خالی رہی۔ اس حملے کے لیے حکام خود متاثرین اور اُن کے پڑوسیوں کو قصور وار سمجھتے رہے۔

9 جون 2004ء کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نیو یازی گروپ کے دونوں نوجوانوں کو دیکھا جا سکتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

پولیس اہلکار بھی بار بار آ کر اس علاقے کے دوکانداروں سے تفتیش کرتے رہے، اُن کے ڈی این اے نمونے لیتے رہے اور اُن کے مالی معاملات کی جانچ پڑتال کرتے رہے۔ اگرچہ کچھ ترک نژاد کاروباری شخصیات نے پولیس کو یہ بتانے کی کوشش بھی کی کہ اس کے پیچھے دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر کا ہاتھ ہو سکتا ہے تام پولیس ایسا کچھ سننے کےلیے بھی تیار نہیں تھی، یہاں تک کہ 2008ء میں اس دھماکے کی فائلیں ہی بند کر دی گئیں۔

اس نیو نازی گروپ کے سلسلے میں تحقیقات کرنے والی پارلیمانی کمیٹی میں حکمران جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU) کے نمائندے کلیمینز بننگر نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ اس واقعے کے ذمے داروں کا بہر صورت سراغ لگایا جانا چاہیے تھا۔ تاہم ایسا نہ ہو سکا اور یہ زیر زمین گروپ جرمنی میں مزید غیر ملکیوں کو قتل کرتا رہا۔

آج کل میونخ کی ایک عدالت میں اس گروپ کی واحد زندہ بچ جانے والی خاتون رکن بیاٹے چَیپے کے خلاف مقدمے کی کارروائی جاری ہے۔ اِدھر کولون کے کوئپ شٹراسے میں اس ہولناک دھماکے کے دَس سال پورے ہونے کے موقع پر ہفتہ سات جون سے لے کر پیر نو جون تک جاری رہنے والی سہ روزہ یادگاری تقریبات میں جرمن صدر یوآخیم گاؤک سمیت کوئی ایک لاکھ افراد شریک ہو رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں