کولون میں اے ایف ڈی کا اجلاس اور احتجاجی مظاہرے بھی
عاطف بلوچ، روئٹرز
22 اپریل 2017
جرمن شہر کولون میں مہاجرت مخالف سیاسی جماعت ’اے ایف ڈی‘ کے اجلاس کے موقع پر ہونے والے مظاہرے پرتشدد رنگ اختیار کر گئے، جس کے باعث دو پولیس اہلکار زخمی ہو گئے جبکہ مشتعل مظاہرین نے پولیس کی ایک گاڑی بھی نذر آتش کر دی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بائیس اپریل بروز ہفتہ مہاجرت مخالف سیاسی جماعت ’الٹرنیٹیو فار جرمنی‘ کے شہر کولون میں منعقد ہونے والے ایک اہم اجلاس کے موقع پر سکیورٹی ہائی الرٹ رکھی گئی ہے۔ اس پارٹی کانگریس میں یہ سیاسی جماعت آئندہ الیکشن میں اپنی حکمت عملی وضع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اے ایف ڈی کے ذرائع کے مطابق اس پارٹی کانگریس میں قریب چھ سو مندوبین شریک ہیں۔
پولیس کے مطابق اس موقع پر کولون شہر میں پچاس ہزار مظاہرین کے جمع ہونے کی توقع ہے جبکہ پہلے ہی سے کسی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے سکیورٹی کے چار ہزار اہلکار وہاں تعینات ہیں۔ پولیس کے مطابق ہفتے کے دن بالخصوص شہر کے مرکزی حصے میں ماحول کافی زیادہ کشیدہ ہو سکتا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق کولون شہر میں اے ایف ڈی کے اجلاس کے موقع پر جہاں اس پارٹی کے حامی بھی مظاہروں میں شریک ہیں، وہیں بائیں بازو کے سیاسی کارکنان بھی شہر کے مختلف علاقوں میں اے ایف ڈی کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان مظاہرین کی تعداد ایک ہزار تک ہو سکتی ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
ہفتے کی صبح ہی مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں کے باعث کم ازکم دو پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کچھ مشتعل مظاہرین نے پولیس کی ایک گاڑی کو آگ بھی لگا دی، جس کے جواب میں سکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے مظاہرین کو منشتر کرنے کی خاطر ’پَیپر اسپرے‘ بھی کیا۔
دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ سخت گیر موقف کی وجہ سے اے ایف ڈی کو عوامی سطح پر کچھ مقبولیت بھی حاصل ہوئی ہے۔ رواں برس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات سے قبل کرائے جانے والے مختلف عوامی جائزوں کے مطابق اس پارٹی کو دس فیصد تک عوامی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔