کولون میں جرمنی کی سب سے بڑی مسجد سے اسپیکر پر اذان آج سے
14 اکتوبر 2022
شہر کولون میں جرمنی کی سب سے بڑی مسجد سے آج جمعہ چودہ اکتوبر سے مؤذن کی طرف سے اسپیکر پر دی جانے والی اذان کی آواز پہلی بار اس عبادت گاہ کے گرد و نواح میں بھی سنی جا سکے گی۔ ایسا آج پہلی مرتبہ جمعے کی نماز کے وقت ہو گا۔
اشتہار
جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں دریائے رائن کے کنارے واقع تاریخی شہر کولون میں مسلمانوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، جن کی اکثریت کا تعلق باقی ماندہ جرمنی میں رہنے والے مسلمانوں کی طرح ترک نژاد مسلم باشندوں سے ہے۔
انتہائی جدید طرز تعمیر والی اس مسجد کا افتتاح چند برس قبل ہوا تھا۔ یہ مسجد جرمنی میں مسلمانوں کی ایسی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے، جو دیکھنے میں بھی مسجد نظر آتی ہے۔ یہ بات اہم اس لیے ہے کہ جرمنی میں اکثر مساجد کی عمارات دیکھنے میں مساجد نہیں لگتیں اور ان کے مینار بھی نہیں ہوتے۔
کولون شہر کی خاتون میئر ہینریئٹے ریکر نے کہا ہے کہ ایک انتظامی فیصلے کے طور پر اس مسجد سے پہلی بار گرد و نواح میں سنی جا سکنے والی اور اسپیکر پر دی گئی اذان کی اجازت دینا دراصل مقامی مسلم برادری کے لیے مذہبی 'احترام کی علامت‘ ہے۔
یہ فیصلہ اس مرکزی مسجد کی انتظامیہ اور کولون شہر کے بلدیاتی حکام کے مابین ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت ممکن ہوا۔
مسجد کی انتظامیہ خوش
کولون شہر میں اس مسجد کا انتظام ترک حکومت کے جرمنی کے لیے مذہبی امور کے ادارے دیتیب (DITIB) کے پاس ہے۔
اشتہار
اس اتھارٹی کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمان اتاسوئے نے کہا، ''ہم بہت خوش ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا، ''مسجد میں اسپیکر پر اذان دے سکنا اس امر کی علامت ہے کہ یہاں بھی مسلمان خود کو ویسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی اپنے ہی گھر یا ملک میں ہو۔‘‘
اس کے برعکس کچھ حلقوں کو یہ تشویش بھی ہے کہ اس مسجد کی انتظامیہ کے حوالے سے اس مسلم عبادت گاہ پر ترکی کے ایک سرکاری اسلامی ادارے کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔
سمتبر 2018ء میں جرمنی کے اپنے ایک دورے کے دوران اس مسجد کا افتتاح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ذاتی طور پر کیا تھا۔
کولون کی میئر کا موقف
چند سیاسی اور سماجی حلقوں کی یہ تشویش کولون کی خاتون میئر ریکر کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مرکزی مسجد سے اسپیکر پر اذان کی اجازت دینا اس شہر میں آباد مسلمانوں کے مذہبی احترام کا عملی ثبوت ہے۔
میئر ہینریئٹے ریکر کا یہ موقف اس لیے بھی باوزن ہے کہ کولون میں آباد مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
جرمنی کے کئی شہروں میں مساجد کے مؤذنوں کو پہلے ہی سے اسپیکر پر اذان دینے کی اجازت ہے مگر کولون میں یہ اجازت پہلی مرتبہ ابھی گزشتہ برس ہی دی گئی تھی، جس پر آج 14 اکتوبر سے عمل درآمد شروع ہو رہا ہے۔
کولون کی جامع مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا کمپاؤنڈ شیشے اور کنکریٹ کا حسین امتزاج ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تو اسے انضمام کی علامت قرار دیا گیا تاہم افتتاح کے وقت اسے تنازعات نے گھیر لیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شگوفے کے مانند
اس مسجد کی کچھ دیواریں شیشے کی ہیں۔ بیرونی راستے سے سڑھیوں کی مدد سے مسجد کے کمپاؤنڈ کی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کا ڈیزائن کھلے پن کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں تمام مذاہب کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کے دو مینار ہیں، جو پچپن بچپن میٹر بلند ہیں۔ مسجد کا گنبد شیشے کا ہے، جس میں کنکریٹ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ دور سے یہ مسجد ایک کِھلتے ہوئے شگوفے کے مانند دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Hackenberg
ثقافتوں کا امتزاج
یہ مسجد کولون کے ایہرنفلڈ ڈسٹرکٹ میں واقع ہے، جہاں ماضی میں متوسط طبقہ اکثریت میں رہتا تھا۔ جب 1970 کی دہائی میں اس علاقے میں واقع فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں تو وہاں بے روزگاری اور غربت کی شرح بڑھ گئی تھی۔ اس علاقے میں کم کرائیوں کی وجہ سے وہاں کئی گیلریز اور تھیٹرز بنائے گئے، جس کی وجہ سے اس علاقے کو ایک نئی شناخت ملی۔ اب بھی اس علاقے کی آبادی میں 35 فیصد تارکین وطن پس منطر کے افراد مقیم ہیں۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
شراکت داری اور چندے
اس مسجد کی تعمیر کی خاطر سینکڑوں مسلم انجمنوں نے چندہ دیا تھا۔ ساتھ ہی بینکوں سے قرضے بھی لیے گئے اور جرمنی میں ترک مذہبی اتھارٹی دیتپ DITIB نے بھی خطیر عطیات فراہم کیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کی مخالفت کے باوجود کولون کی شہری انتظامہ نے سن دو ہزار آٹھ میں اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔
تصویر: picture alliance / dpa
ترک حکام سے اختلافات، آرکیٹیکٹ علیحدہ
آرکیٹیکٹ پاؤل بوؤم چرچ کی عمارتوں کے ڈیزائن بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہی سن دو ہزار پانچ میں اس مسجد کی تعمیر کا کنٹریکٹ جیتا تھا۔ وہ اس مسجد کی عمارت کو انضمام کی علامت کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے۔ تاہم جرمنی میں فعال ترک تنظیم DITIB کی قیادت سے اختلافات کے باعث وہ سن دو ہزار گیارہ میں اس منصوبے سے الگ ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
پہلی نماز اور افتتاح
جرمن شہر کولون کی اس جامع مسجد کو سن دو ہزار سترہ کے رمضان میں نمازیوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ تاہم اس کا باقاعدہ افتتاح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتیس ستمبر سن دو ہزار اٹھارہ میں کیا۔ یہ جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بارہ سو نمازیوں کی گنجائش
اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر دو وسیع کمپاؤنڈز ہیں، ایک گراؤنڈ فلور پر اور دوسرا پہلی منزل پر۔ مجموعی طور پر بارہ سو نمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کی عمارت میں ایک کتب خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ وہاں کچھ دکانیں اور کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں تاکہ اس مسجد میں جانے والے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط ممکن بنا سکیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/M. Becker
نئی سکائی لائن
جب اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ عوامی سطح پر پیش کیا گیا تھا تو کچھ حلقوں نے اس مسجد کی عمارت کے سائز پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ بالخصوص مسجد کے میناروں کی اونچائی کے تناظر میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس مسیحی شہر کے سکائی لائن میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ تب کولون شہر کے آرچ پشپ کارڈینیل یوآخم میزنرنے تسلیم کیا تھا کہ اس منصوبے سے ’مضطربانہ احساس‘ پیدا ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H.Kaiser
دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا احتجاج
اس مسجد کے منصوبے پر جرمنی میں دائیں بازو کی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ کٹر نظریات کے حامل کچھ سیاستدانوں نے بھی عوامی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع کر دی تھی۔ تب جرمن لکھاری رالف گیروڈنو نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جرمنی میں مساجد کی تعمیر دراصل ملک میں ’آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی اسلامائزیشن کا اظہار‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
امام مسجد یا جاسوس؟
سن دو ہزار سترہ میں جرمن حکام نے ترک مذہبی ادارے DTIB کے آئمہ کے خلاف چھان بین کا عمل شروع کیا تھا۔ ان آئمہ کو ترک حکومت کی طرف سے تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کی تربیت بھی ترکی ہی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا تھا، جو کولون کے اس کمپلیکس سے وابستہ تھے۔ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ آئمہ انقرہ حکومت کے لیے جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
9 تصاویر1 | 9
مسجد سخت شرائط پر عمل درآمد کی پابند
جرمنی کی یہ سب سے بڑی مسجد کولون شہر کے ایہرن فَیلڈ نامی علاقے میں ہے۔ شہری انتظامیہ نے اجازت یہ دی ہے کہ وہاں صرف جمعے کی نماز کے لیے اسپیکر پر اذان دی جا سکتی ہے۔ اس اجازت کا اطلاق ہر روز پانچ مرتبہ دی جانے والی اذانوں پر نہیں ہو گا اور یہ روزانہ اذانیں حسب معمول آئندہ بھی اسی طرح دی جائیں گی کہ وہ اس مسجد اور اس سے ملحقہ کمیونٹی سینٹر سے باہر یا گرد و نواح میں سنائی نہیں دیں گی۔
اس اجازت کے بعد کولون شہر ہی میں مسلمانوں کی کئی دیگر مساجد نے بھی حکام کو یہ درخواستیں دے رکھی ہیں کہ انہیں بھی جمعے کی نماز کے لیے اسپیکر پر اذان کی اجازت دی جائے۔
ایہرن فَیلڈ کی اس مرکزی مسجد کو دی گئی اجازت کے مطابق اس مسجد سے مؤذن ہر جمعے کے روز با جماعت نماز کے لیے مقامی وقت کے مطابق دوپہر بارہ بجے اور سہ پہر تین بجے تک کے درمیان صرف ایک بار اسپیکر پر اذان دے سکے گا۔ اس اذان کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ ہو گا اور اس کی آواز تکنیکی طور پر 60 ڈیسیبل سے زیادہ اونچی نہیں ہو گی۔
م م / ع ا (اے ایف پی، ای پی ڈی)
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔