کولون پرائڈ پریڈ: جشن بھی اور تعصب کے خلاف احتجاج بھی
7 جولائی 2019
’کرسٹوفر اسٹریٹ پریڈ‘ میں مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے ہم جنس پسند افراد مساوی حقوق کی غرض سے شرکت کرتے ہیں۔ جرمن شہر کولون میں لاکھوں افراد نے ہم جنس پسندوں کے خلاف بڑھتے تعصب کو روکنے کے حق میں آواز بلند کی۔
اشتہار
یورپ کی سب سے بڑی 'ایل جی بی ٹی پرائڈ پریڈ‘ میں شرکت کے لیے اتوار کے روز کولون میں لاکھوں ہم جنس پسند افراد جمع ہوئے۔ 50 برس قبل نیویارک شہر میں اسٹون وال کے مقام پر ہونے والے پرتشدد واقعات ہم جنس پسند افراد کے حقوق کے لیے مہم کا نقطہ آغاز ثابت ہوئے تھے۔
اس سال کی تقریبات میں شرکت کرنے والی اہم شخصیات میں 'یورو وژن‘ موسیقی مقابلہ جیتنے والے ڈریگ اسٹار کونشیٹا وُرسٹ اور امریکی میوزک بینڈ 'Spice Girl‘ کی گلوکارہ میلانی سی بھی شامل ہیں۔
ایل جی بی ٹی افراد کے حقوق کو دنیا کے بہت سے ممالک میں تسلیم کیا جا چکا ہے لیکن آج بھی ہم جنس پسند افراد تعصب اور نفرت کا شکار ہیں۔ جرمنی میں ہم جنس پسند افراد کے خلاف بڑھتے حملوں کی وجہ سے منتظمین نے کولون پرائڈ مارچ کو ایک احتجاجی مظاہرے کے طور پر پیش کیا ہے۔
مساوی حقوق کی مانگ
ہم جنس پسند افراد اور 'ایل جی بی ٹی‘ برادری پرائڈ مارچ میں آزادی سے اپنی جنسی شناخت کا جشن مناتے ہیں۔ کولون کی مارچ میں موجود متعدد شرکا جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت اے ایف ڈی کو ایک واضح پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اے ایف ڈی نے ہم جنس افراد کی آپس میں شادی کی اجازت کے خاتمے اور اسکولوں میں جنسی موضوعات پر مباحثے کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے۔
علاوہ ازیں جرمنی میں ایل جی بی ٹی افراد کو اکثر تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ جرمن حکومت کی جانب سے رواں برس شائع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہم جنس پرست افراد کے خلاف حملوں میں تیس فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کولون میں ہم جنس پرست خواتین اور مردوں کی تنظیم کی ایک اعلیٰ عہدیدار اینا وولف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہم جنس پرستوں کے خلاف بڑھتا تعصب انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے عروج ساتھ منسلک ہے۔ اینا کے بقول، ''اس سال کا عنوان 'Many.together.strong' یعنی 'متعدد، ایک دوسرے کے ساتھ، مضبوط‘ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے ماضی میں اپنے حقوق کے لیے کٹھن جدوجہد کی ہے اور مستقبل میں بھی ہم نیو نازیوں اور جرمن و یورپی پارلیمان میں موجود دائیں بازو کے عوامیت پسندوں سے ہرگز ہار نہیں مانیں گے۔‘‘
ع آ / ش ح (Rebecca Staudenmaier)
ایشیا میں ’ایل جی بی ٹی‘ کی مساوی حقوق کی جنگ
گذشتہ چند سالوں میں جہاں ایک طرف ایشیائی ممالک میں ایل جی بی ٹی افراد کے حقوق کی صورتحال بہتر ہوئی ہے وہیں ہم جنس پرستوں کو اب بھی وسیع امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
بھارتی قوس قزح تحریک
ستمبر 2018 ء میں ایل جی بی ٹی افراد کے لیے رنگین پرچم لہرائے گئے۔یہ وہی وقت تھا جب بھارتی سپریم کورٹ نے سیکشن 377 کے تحت ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت تو دے دی لیکن ہم جنس پرستوں کی شادیوں نے کا معاملہ ابھی بھی دور کی بات ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Nath
مخنث ملکہ حسن
سن 2019 میں تھائی لینڈ میں ٹرانسجنڈرز کا ایک مقابلہ حُسن منعقد کیا گیا جس میں ایک مخنث ملکہ حسن مقابلہ جیت گئیں۔ تھائی لینڈ میں رواں برس ہونے والے پارلمیانی انتخابات میں ایک مخنث امیداور کے حصہ لینے کی وجہ سے یہ موضوع سیاسی سطح پر بھی زیادہ توجہ حاصل کرتا جا رہا ہے۔ تھائی لینڈ میں ہم جنس پرست ابھی بھی قانونی طور پر شادی نہیں کر سکتے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
تائیوان کے پر امید ہم جنس پرست
تائیوان کے ہم جنس پرست سن 2018 میں خاصے پر امید تھے کہ انہیں شادی کی قانونی اجازت مل جائے گی مگر، ان کی امیدیں مٹی میں مل گئیں جب تائیوانی ووٹرز نے ریفرینڈم کے ذریعے اسے نامنظور کر دیا۔
تصویر: Reuters/A. Wang
انڈونیشیا کے ہم جنس پرست
ہم جنس پرستوں اور ٹرانسجینڈر افراد کو انڈونیشیا میں اپنے جنسی رجحان کو چھپانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔اس معاشرے میں ہم جنس پرستی کے خلاف گہرا تعصب پایا جاتا ہے۔یہاں ایل بی جی ٹی کے خلاف مظاہرے اکثر ہوتے ہیں. ایل بی جی ٹی حقوق کی حمایت کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں نفرت اور انتہا پسندی کا شکار ہیں۔
ملائیشیائی وزیر کی جانب سےایل بی جی ٹی کمیونٹی نامنظور
ملائیشیا کے سیاحتی وزیر محمد الدین کیٹاپی سے ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ،کیا آنے والے سیاحتی میلے ہم جنس پرستوں کو خوش آمدید کہا جائے گا؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ،’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا ملک اس کی حمایت میں ہے۔‘‘ جبکہ دیگر وزراء نے بھی حقارت آمیز جوابات دئیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
آزادی کے انمول لمحات
سنگاپور میں اوپن ایئر میں منعقد ہونے والی گے پریڈ کے شرکاء پوری طرح سے اس ایوونٹ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اگرچہ سنگا پور بہت سے اعتبار سے بہت ترقی پسند ہے تاہم یہ جزیرہ نما سٹی اسٹیٹ جنسی معاملات میں نہایت قدامت پسند ہے۔ یہاں ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا ایک دوسرے سے رشتہ ہونا نہ صرف جرمانے کی وجہ سے مہنگا پڑ تا ہے بلکہ کبھی کبھی تو یہ جیل تک پہنچا دینے کا سبب بن جاتا ہے۔