کون سی ملازمتيں مصنوعی ذہانت سے متاثر نہيں ہوں گی؟
6 دسمبر 2025
ایسی لیبر مارکیٹ میں جہاں مصنوعی ذہانت تیزی سے ملازمتوں کو تبدیل کر رہی ہے اور بعض اوقات انہیں ختم بھی کر رہی ہے، طالبہ میرینا یاروشینکو نے ایک ایسا پیشہ چننے کا فیصلہ کیا جو امکاناً مستقبل میں بھی پائیدار اور محفوظ رہے گا۔ یاروشینکو یوکرین سے تعلق رکھتی ہیں اور ان دنوں لندن کے سٹی آف ویسٹ منسٹر کالج میں زیرِ تعلیم ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ وہ چیز ہے جس پر اے آئی کبھی قابو نہیں پا سکے گی۔‘‘
برطانیہ میں وائٹ کالر ملازمتوں کو مزدوری کے مقابلے میں اے آئی اور خودکار نظام سے زيادہ خطرہ ہے۔ ہيومن ريسورسز کے ادارے چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف پرسنل اینڈ ڈویلپمنٹ کے گزشتہ ماہ کیے گئے سروے کے مطابق برطانیہ میں ہر چھ میں سے ایک آجر کو توقع ہے کہ اے آئی ٹولز کے استعمال سے آئندہ 12 ماہ میں ان کے عملے کی تعداد ہو سکتی ہے۔
یاروشینکو کا ماننا ہے کہ اے آئی ایک مفید ٹول ہے مگر وہ سمجھتی ہیں کہ یہ پلمبنگ جیسے عملی کام کی جگہ نہیں لے سکتا۔ انہوں نے کہا ''ہم یقیناً اس (اے آئی) کے ساتھ کام کریں گے، مگر انسان وہ منفرد کام کر سکتا ہے جو اے آئی نہیں کر سکتی۔ کوئی اے آئی پلمبنگ نہیں کر سکتی، کوئی اے آئی حقیقی انجینيئرنگ نہیں کر سکتی، کوئی اے آئی الیکٹریشن نہیں بن سکتی۔‘‘
ہنر پر مبنی کورسز کی طلب میں اضافہ
سٹی آف ویسٹ منسٹر کالج (سی ڈبلیو سی) جو یونائیٹڈ کالجز گروپ کا حصہ ہے، کوئی یونیورسٹی نہیں بلکہ اعلیٰ ثانوی تعلیم اور ٹریننگ فراہم کرنے والا ایک ادارہ ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں اس کے انجینئرنگ، تعمیرات اور تعمیراتی ماحول سے متعلق کورسز میں داخلوں میں 9.6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ادارے کے سی ای او اسٹیفن ڈیوس اس اضافے کی وجہ جزوی طور پر اے آئی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی اور یونیورسٹی کی بڑھتی ہوئی فیسوں کو قرار دیتے ہیں۔ نوجوان یونیورسٹی جانے کے بجائے اسے چھوڑ رہے ہیں تاکہ ہزاروں پاؤنڈ کے قرض سے بچ سکیں جو یونیورسٹی کی تعلیم کی وجہ سے اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
اگست میں ٹریڈز یونین کانگریس، جو برطانیہ کی سب سے بڑی مزدور تنظیم ہے، کی جانب سے 2,600 بالغ افراد پر کیے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ برطانیہ کے نصف بالغ افراد، خاص طور پر 25 سے 35 سال کی عمر کے لوگ، اے آئی کے اپنی ملازمتوں پر اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں۔
ہنرمند شعبوں میں دلچسپی میں نمایاں اضافہ
کنگز کالج لندن میں لیکچرار اور اے آئی محقق باؤکے کلین ٹیسیلنک نے کہا، ''اس وقت نوجوانوں میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے کہ ان کی ملازمتیں خودکار نظام کے ذریعے ختم ہو جائیں گی۔‘‘
ٹیسیلنک کی اکتوبر میں شائع ہونے والی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اے آئی کی وجہ سے افرادی قوت میں کمی کا اثر غیر متناسب طور پر جونیئر ملازمین پر ہوتا ہے، جس سے نوجوانوں کے لیے اپنے کیریئر کا آغاز کرنا اور اوپر بڑھنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ دیگر کالجز بھی اسی طرح کے رجحانات رپورٹ کر رہے ہیں۔ لندن میں ہی واقع کیپیٹل سٹی کالج کی سی ای او اینجلا جوائس نے کہا کہ تعمیرات، پلمبنگ، مہمان نوازی اور دیگر ہنرمند شعبوں میں دلچسپی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جوائس نے کہا، ''اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ لوگ ہنرمند پیشہ ور بننے کی قدر کو سمجھ رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ افراد کے لیے اپرنٹس شپ، ڈگری کے مقابلے میں بہتر آمدنی فراہم کر سکتی ہے۔ ڈیوس کا کہنا تھا کہ اے آئی نے نہ صرف نوجوانوں بلکہ ان بالغ افراد کو بھی، جو کیریئر تبدیل کرنا چاہتے ہیں، زیادہ سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے پر مجبور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ ملازمت کی حفاظت اور زیادہ تنخواہوں کی تلاش میں ہیں۔
آفس فار نیشنل اسٹیٹسٹکس کے مطابق، پلمبرز کی اوسط سالانہ کمائی 50,169 ڈالر ہے، جبکہ ہنرمند تعمیراتی اور بلڈنگ ٹریڈز کے کارکن تقریباً ارٹالیس ہزار ڈالر کماتے ہیں۔اس کے مقابلے میں تمام شعبوں میں اوسط تنخواہ باون ہزار ڈالر ہے۔ ڈیوس نے کہا کہ ہنرمند پیشے اکثر لوگوں کو اپنا کاروبار چلانے کے زیادہ مواقع فراہم کرتے ہیں، جس سے ان کی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔
ہنرمند شعبوں میں نئی نسل کی آمد
پلمبنگ کو منتخب کرنے کے حوالے سے یاروشینکو نے کہا کہ ایک اور وجہ جس سے وہ طویل مدت تک کسی ہنرمند پیشے میں رہتی نظر آتی ہیں، یہ ہے کہ موجودہ ورک فورس عمر رسیدہ ہو رہی ہے اور نئی نسل کے ہنرمند کارکنوں کی مانگ مسلسل بلند رہے گی۔ یاروشینکو نے مزید کہا کہ انہوں نے یونیورسٹی کے بجائے کالج اس لیے چنا کیونکہ وہ جلد از جلد ''اصل زندگی کا کام‘‘ سیکھنا چاہتی تھیں۔
ہائیئر ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس ایجنسی کے مطابق، برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں انڈر گریجویٹ داخلوں میں معمولی کمی آئی ہے۔ 2023/24 کے تعلیمی سال میں یہ تعداد اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 1.1 فیصد کم ہوئی، جو تقریباً ایک دہائی میں پہلی سالانہ کمی ہے۔
ٹیسیلنک نے کہا کہ روبوٹ پلمبرز کو پلمبنگ کا کام سنبھالنے میں ابھی کافی وقت لگے گا، کیونکہ یہ بہت "باریک کام" ہوتا ہے۔ ڈیوس نے کہا کہ اگرچہ روبوٹکس ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے، مگر پلمبنگ جیسے کورسز کرنے والے طلبہ مستقبل کے لیے اچھی پوزیشن میں ہیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے مثال دی، ''کبھی کبھی پلمبرز کو ٹوائلٹ میں ہاتھ ڈال کر بندش دور کرنی پڑتی ہے… اور ابھی تک میں نے ایسا کوئی روبوٹ نہیں دیکھا جو ہمارے لیے یہ کام کر دے۔‘‘
ادارت: عاصم سليم