کوورونا وبا میں بچوں کا آن لائن استحصال بڑھا ہے، یورو پول
28 دسمبر 2020یورو پول کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین ڈی بول نے واضح کیا ہے کہ رواں برس کورونا وبا کے دوران بچوں کے آن لائن جنسی استحصال میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق ان مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث افراد اپنا زیادہ تر وقت آن لائن صرف کرتے ہیں۔ اس دوران وہ رابطے میں آنے والے بچوں کو نامناسب مواد بھی ارسال کرتے ہیں۔
یورو پول کی سربراہ نے اس مناسبت سے اپنی گہری تشویش کا اظہار جرمن فُنک نیوز پیپر گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کورونا وبا کے دوران اس استحصالی عمل کا ارتکاب کرنے والے وبا سے قبل کے مقابلے میں زیادہ فعال ہو چکے ہیں۔
اسکاؤٹنگ میں بچوں کے جنسی استحصال بڑا اسکینڈل
آن لائن استحصال
کیتھرین ڈی بالی نے بچوں کی آن لائن جنسی استحصال کو ایک گھمبیر مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے ایک جاری خطرے سے تعبیر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرنے والے بچوں سے براہِ راست تعلق استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا شکار ایسے بچے ہو سکتے ہیں جو لاک ڈاؤن کے دوران انٹرنیٹ پر بہت زیادہ دیر موجود رہتے ہیں، کسی بڑے کی نگرانی کے بغیر۔
یوروپول کے ادارے کا صدر دفتر ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں واقع ہے اور یہ یورپی ریاستوں کو دہشت گردی، سائبر کرائمز اور دوسرے سنگین منظم جرائم کے انسداد میں مدد و تعاون کرتے ہیں۔
جرمنی میں کریک ڈاؤن
رواں مہینے کے اوائل میں تفتیش کاروں نے جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فالیا (NRW) میں کئی مقامات پر چھاپے مارے تھے۔ ان چھاپوں کا مقصد ایسے مشتبہ افراد کو تحویل میں لینا تھا جو بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی فوٹیج اور تصاویر کو دوسرے افراد کے ساتھ شیئر کرنے میں ملوث تھے۔ دفتر استغاثہ کے مطابق چھپن مشتبہ افراد کو نشانہ بنایا گیا اور تین سو تیس اسٹوریج ڈیوائسز کو قبضے میں لیا گیا تھا۔
نیوزی لینڈ: حکومتی اور مذہبی کیئر ہومز میں لاکھوں بچوں اور بالغوں کا استحصال
یہ بھی اہم ہے کہ چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت نے رواں برس اکتوبر میں بچوں کے خلاف جنسی تشدد اور استحصال کے مرتکب افراد کے لیے جیل کی سزائیں سخت کرنے کی منظوری دی تھی جس کی مدت پندرہ سال تک ہو سکتی ہے۔
جرمن اعداد و شمار
جرمنی میں جرائم کے اعداد و شمار رکھنے والے ادارے کے مطابق سن 2019 میں بچوں کے جنسی استحصال کے پچیس ہزار واقعات رونما ہوئے تھے اور بارہ ہزار ایسے جرائم کی باضابطہ تفتیش بھی کی گئی تھی، جن کا تعلق بچوں کی غیر مناسب تصاویر سے تھا۔ ادارے کے مطابق سن 2018 کے مقابلے میں یہ اضافہ 65 فیصد تھا۔
ع ح / ا ب ا (ڈٰ پی اے، اے ایف پی)