بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے بعد نافذ لاک ڈاؤن کے گہرے منفی اقتصادی اثرات سامنے آئے ہیں۔ اس لاک ڈاؤن سے سیکس ورکرز کو بھی شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
اشتہار
ایک تیئیس سالہ بھارتی سیکس ورکر نیہا (نام تبدیل ہے)کا کہنا ہے کہ وہ خود نئی دہلی میں رہتی ہے اور وہ اپنے خاندان کی کفالت کا واحد ذریعہ ہے۔ نیہا کا بقیہ خاندان شمالی ریاست ہریانہ میں رہتا ہے۔ وہ اپنے چھوٹے بہن اور بھائی کی تعلیم کا خرچہ بھی ادا کرتی ہے۔ نیہا کی والدہ بیمار ہیں اور اُن کے علاج کی ذمہ داری بھی اُسی کی کمائی پر ہے۔
لاک ڈاؤن اور سیکس ورکرز
کورونا وائرس کی وبا کے بعد لگائے گئے لاک ڈاؤن نے نیہا سمیت اُس جیسے تمام سیکس ورکرز کی آمدن کے سبھی ذرائع بند کر دیے ہیں۔ نیہا نے ٹیلیفون پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ اگر صورت حال یونہی رہی تو اُس کے لیے خودکشی کو سوا کئی راستہ نہیں بچے گا۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نیہا کا خاندان اُس کی نوکری یا آمدن کے ذریعے کے بارے میں نہیں جانتے۔ ایسی مشکلات کا سامنا زیادہ تر سیکس ورکرز کو ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے کووڈ انیس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لاک ڈاؤن میں یہ واضح کیا گیا ہے کے سیکس ورکرز اپنی سرگرمیوں کو ہر ممکن طریقے سے بند رکھیں گے۔
سیکس ورکرز کے لیے مالی امداد
ایسے آمدنی سے محروم اور شدید مالی مشکلات کے شکار سیکس ورکرز کی مالی مدد کے لیے بعض غیر حکومتی تنظیموں نے فنڈ جمع کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ دہلی میں سیکس ورکرز کی ایک بڑی تعداد اس کاروبار سے جڑی ہے۔
نئی دہلی کی ایک غیر حکومتی اور غیر منافع بخش تنظیم 'کت کتھا‘ سے منسلک انوراگ گارگ کا کہنا ہے کہ اب تک آٹھ سو سیکس ورکرز کی باضابطہ طور پر مالی مدد کی جا چکی ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مالی مدد فقط چند دنوں کے گزارے کے لیے ہی کافی ہے اور اس کے لیے مزید سرمائے کی ضرورت ہے۔
سیکس ورکرز میں مایوسی
آل انڈیا نیٹ ورکر برائے سیکس ورکرز کے ڈائریکٹر امیت کمار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بہت سارے سیکس ورکرز پریشانی کے عالم میں یہ کام چھوڑ کر اپنے اپنے آبائی علاقوں کو روانہ ہو چکے ہیں۔ کمار کے مطابق دہلی میں بچے کچھے موجود سیکس ورکرز کی زندہ رہنے کی پریشانی ہر دن گزرنے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ کئی ایک کے پاس کھانے کو بھی اب کچھ نہیں بچا ہے۔
امیت کمار نے یہ بھی کہا کہ نئی دہلی حکومت نے مختلف دوسری ریاستوں سے آئے ہوئے دیہاڑی دار مزدوری کرنے والوں کے دکھ درد کا احساس کیا ہے اور ان کے کھانے پینے کا بند و بست بھی کیا گیا لیکن سیکس ورکرز اس حکومتی پیشکش اور انتظام سے محروم ہیں۔
حکومت سے درخواست
ان سیکس ورکرز کی مشکلات کا اندازہ لگاتے ہوئے ویمن کمیشن کے نئی دہلی دفتر نے مودی حکومت کو ایک خط تحریر کیا ہے۔ اِس خط میں ان سیکس ورکرز کی حالت زار کا احوال بیان کرتے ہوئے ان کی مالی مدد کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
مصنف: سیامانتک گھوش (ع ح / ب ج)
خالی گلیوں پر جانوروں کا راج
کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں بندشوں نے انسانوں کو گھروں تک محدود کر کے رکھ دیا ہے، مگر خالی سڑکوں پر جانور ان دنوں جشن مناتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
شہر کا دورہ
ویلز کے قصے لانڈوڈنو میں پہاڑی بکریاں خالی سڑکوں پر گھومتی اور ادھر ادھر دیکھی نطر آ رہی ہیں۔ ویڈیو پروڈیوسر اینڈریو اسٹورٹ کی ٹوئٹر پر پوسٹ کے بعد تو ان کی تصاویر اب آن لائن فیورٹ بن چکی ہیں۔ اسٹورٹ لکھتے ہیں، ’’ ان گلیوں میں کوئی نہیں جو انہیں ڈرا سکے۔ انہیں کوئی پروا نہیں ہے اور یہ جو جی چاہ رہا ہے، کھا رہی ہیں۔‘‘ برطانیہ میں 23 مارچ سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/empics/P. Byrne
نئی دنیا کی دریافت
آٹھویں صدی میں نارا نامی قدیمی شہر جاپان کا دارالحکومت تھا۔ اس وقت نارا میں پھرنے والے ہرنوں کو’دیوتاؤں کے پیام بر‘ کے طور پر لیا جاتا تھا۔ شہر کے ہزار سے زائد ہرن مرکزی پارک میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اب شہریوں کے باہر نکلنے کی ممانعت کے دور میں کچھ شرارتی ہرنوں نے نارا کی گلیوں اور سڑکوں پر گھومنے کا شوق اپنا لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. C. Hong
بندروں کا خطرہ
تھائی لینڈ کے شہر لوپبوری میں سینکڑوں بندروں نے ادھر اُدھر پھرنے کو معمول بنا لیا ہے۔ یہ بندر بہت نرم خُو بھی نہیں ہیں۔ وبا کے دور میں لوگوں کی کمی کی وجہ سے خوراک بھی کم ہو کر رہ گئی ہے۔ اِس باعث روٹی کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ان بندروں کے جتھوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Z. Tun
شہر بھی جنگل
حال ہی میں ایک نوجوان چیتے کو لاطینی امریکی ملک چلی کے دارالحکومت سنتیاگو کے مرکزی علاقے میں گھومتے پھرتا دیکھا گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد ایک اور چیتا شہر میں پھرتے دیکھا گیا۔ یہ جنگلی جانور قریبی پہاڑی سلسلے آنڈیس سے اتر کر شہر میں داخل ہو رہے ہیں کیونکہ ساٹھ لاکھ کی آبادی کا شہر لاک ڈاؤن کے زیر اثر ہے۔
تصویر: AFP/A. Pina
غیر مانوس سرزمین
دنیا کی سترہ فیصد آبادی کا ملک بھارت ہے۔ چوبیس مارچ سے اس ملک میں تین ہفتے کے لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو چکا ہے۔ شہر اور قصبے ویران ہیں۔ بھارت کے ایک بڑے شہر کولکٹا میں آوارہ کتوں نے ڈھیرے ڈال لیے ہیں۔ اس وقت سارے بھارت میں لاکھوں آوارہ کتے مختلف شہروں میں پھر رہے ہیں۔ ان آوارہ کتوں کو ہلاک کرنے کا قانون بھی منظور کیا گیا ہے۔
تصویر: AFP/D. Sarkar
آوارہ جانوروں کی حکمرانی
ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں آوارہ کتے اور بلیاں عام طور پر نظر آتے ہیں لیکن کورونا وائرس کی وبا میں سیاحوں سے بھرے شہر میں ویرانی پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں قریب دو لاکھ سے زائد کتوں اور بلیوں کے جتھے استنبول کی سڑکوں اور گلیوں میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے کارکنوں کے مطابق وبا کے دوران کئی افرد نے اپنے پالتو جانوروں کو بیکار جان کر باہر پھینک دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/E. Demirtas
خاموش نہریں
اطالوی شہر وینس کو سیاحوں کی من پسند منزل خیال کیا جاتا ہے۔ کووڈ انیس نے اٹلی کو شدید انداز متاثر کیا ہے۔ اس ملک میں بیس ہزار کے قریب اموات اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ میں وائرس کی تشخیص کی جا چکی ہے۔ دوسرے شہروں کی طرح وینس بھی ویران ہو کر رہ گیا ہے۔ وینس کی نہروں کے گنڈولے، واٹر بوٹس اور واٹر ٹیکسیاں اب سیاحوں کی راہ دیکھ رہی ہیں۔