کووڈ انیس کے خلاف ویکسین ایک سال تک تو نہیں، عالمی ادارہ صحت
14 اپریل 2020
عالمی ادارہ صحت کے مطابق نئے کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس کے خلاف کوئی بھی مؤثر ویکسین غالباﹰ اگلے ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک تو دستیاب نہیں ہو سکے گی۔
اشتہار
جنیوا میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے منگل چودہ اپریل کے روز کہا گیا کہ امریکا میں کورونا وائرس ابھی تک تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کے علاوہ یورپ میں اس وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے اب ایک ملی جلی تصویر نظر آنے لگی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے صحافیوں کو بتایا کہ یورپ میں اس مرض سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے اٹلی اور اسپین میں اس وائرس کے نئے کیسز کی روزانہ شرح میں کمی دیکھنے میں آنے لگی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور ترکی جیسے ممالک میں نیا کورونا وائرس ابھی تک تیزی سے پھیل رہا ہے۔
'وبا کی انتہا تو ابھی دیکھنے میں آئے گی‘
ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے جنیوا میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا، ''اس وقت تک پوری دنیا میں نئے کورونا وائرس کے جتنے بھی کیسز دیکھنے میں آئے ہیں، ان میں سے 90 فیصد کیس یورپ اور امریکا میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اس لیے یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ عالمی سطح پر اس وائرس کے پھیلاؤ کی ممکنہ حد تک انتہائی اونچی سطح ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی۔‘‘
چین کے بارے میں، جس کے شہر ووہان سے شروع ہو کر یہ وبا اب تک دنیا کے دو سو کے قریب ممالک اور خطوں تک پہنچ چکی ہے، ڈاکٹر ہیرس نے کہا، ‘‘چین سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں اب حکام کی نظر میں سب سے بڑا خطرہ نئے کورونا وائرس کے وہ کیسز ہیں، جن کا سبب بیرون ملک سے وطن لوٹنے والے باشندے ہیں۔‘‘
اگلے ایک سال تک ویکسین 'غیر متوقع‘
اب تک نیا کورونا وائرس دنیا بھر میں تقریباﹰ دو ملین انسانوں کو متاثر کر چکا ہے، جن میں سے ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد کا انتقال بھی ہو چکا ہے۔ دریں اثناء کئی ممالک میں سائنسی او طبی ماہرین اس مہلک وائرس کے خلاف جلد از جلد کوئی نہ کوئی ویکسین تیار کر لینے کی انتھک کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسی کسی مؤثر ویکسین کی تیاری میں اب بھی ایک سال یا اس سے بھی زیادہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی ترجمان نے کہا، ''ہمیں دراصل یہ توقع کرنا ہی نہیں چاہیے کہ آئندہ بارہ ماہ یا اس سے بھی طویل عرصے کے دوران کووِڈ انیس کے خلاف کوئی مؤثر ویکسین تیار کی لی جائے گی۔‘‘
م م / ع ح (روئٹرز، ای پی ڈی)
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن
نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر سماجی میل ملاپ سے اجتناب اور سفری پابندیوں کی وجہ سے یورپ میں سیاحت کے ليے مشہور بڑے بڑے شہر بھی سنسان ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Camus
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/S. Babbar
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
تصویر: AFP/T. Akmen
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Bruno
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
تصویر: Imago Images/Zuma/E. Inetti
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/X. Bonilla
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔