1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کووڈ بحران: بھارت میں میڈیا کو سینسر کیوں کیا جا رہا ہے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
28 اپریل 2021

بھارتی حکام ایک بار پھر ایسی سوشل میڈیا پوسٹس کو ہٹا رہے ہیں جن میں حکومت پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت صحت کے بحران کی سنگینی کو دنیا کی نگاہوں سے چھپانے کے لیے یہ اقدام اٹھا رہی ہے۔

Indien Neu Delhi | Coronavirus | Todesopfer
تصویر: Amarjeet Kumar Singh/Zuma/picture alliance

بھارت سرکار نے ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام جیسی سوشل میڈیا سائٹس کو حکم دیا ہے کہ وہ اس مواد کو ہٹا دیں جن میں کورونا کی نئی لہر کی وجہ سے ملک گیر سطح پر پیدا شدہ ہیلتھ کیئر کی سنگین صورت حال کے حوالے سے حکومت پر نکتہ چینی کی گئی ہے۔

بھارت میں اس وقت کورونا انفیکشن اور اموات کا ہر روز ایک نیا ریکارڈ بن رہا ہے۔ ہسپتالوں میں گنجائش نہیں ہے، آکسیجن کی قلت ہے اور کووڈ سے ہلاک ہونے والوں کی آخری رسومات ادا کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔شمشان گھاٹ اور قبرستان اپنی صلاحیت سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر نے جو ٹوئٹس ہٹائے ہیں ان میں سے بیشتر میں میڈیکل سپلائی، ہسپتالو ں میں بستر اور آکسیجن فراہمی میں ناکامی کی وجہ سے حکومت پر تنقید کی گئی تھی۔پریشان حال لوگ اپنی بات کہنے اور مدد کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ جو پوسٹس ہٹائے گئے ہیں ان میں غلط یا گمراہ کن اطلاعات دی گئی تھیں اور ان کی وجہ سے لوگوں میں خوف پیدا ہو رہا تھا۔

تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا، ”یہ فیصلہ کورونا وبا کے خلاف جنگ میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس طرح کے پوسٹس سے عوامی نظم و نسق کو نقصان پہنچ سکتاتھا۔"

فروری میں بھی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک قانونی نوٹس کے بعد ٹوئٹر نے پانچ سو سے زائد ایسے اکاونٹس بند کردیے تھے جو متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک سے متعلق تھے۔

'معلومات کو کنٹرول کرنے‘ کی کوشش

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے خلاف کسی بھی طرح کی نکتہ چینی کو برداشت نہیں کرتی ہے اور رائے عامہ پر کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔

میڈیا امور کی ماہر پامیلا فلیپوز نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”حکومت کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اطلاعات کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ بلاشبہ وبا کے دوران غلط اطلاعات بھی پھیلتی ہیں لیکن انہیں پوری طرح سینسر کر دینا فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ایسا کرنے سے اہم اطلاعات پر بھی پابندی عائد ہو جاتی ہے۔"

میڈیا ناقد اور بھارت کے پہلے میڈیا واچ ڈاگ 'دی ہوٹ‘ کی ایڈیٹر سیوانتی نینان نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، ”پہلے حکومت اطلاعات دینے والوں کو نشانہ بناتی تھی لیکن اب وہ پلیٹ فارم کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔اس وبا کی رپورٹنگ میڈیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔"

تصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance

میڈیا کو درپیش چیلنجز

گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارتی میڈیا میں ایک نئی صف بندی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر نکتہ چینی کو بھارت کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

میڈیا اور حکومت کے درمیان تعلقات کی ایک نئی تشریح کرتے ہوئے حکومت پچھلے چند برسوں کے دوران حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے میڈیا اداروں کو ملک دشمن کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ دوسری طرف حکومتی پالیسیوں کی حمایت کرنے والے میڈیا اداروں کو حکومت کا تحفظ اور حمایت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر جب دہلی میں ہسپتال آکسیجن کی کمی سے پریشان تھے تو بعض'حکومت نواز‘ ٹی وی چینلوں نے اس کے لیے دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دینے والے کسانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ کسانوں کے محاصرے کی وجہ سے آکسیجن شہر میں نہیں پہنچ پا رہی ہے۔

ایک سینیئر سرکاری عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کے میڈیا مشیر مخصوص ٹی وی اینکروں کو مباحثے کے لیے ممکنہ موضوعات بھیجتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”متعدد ٹی وی چینلوں نے ایسے موضوعات پر بحث کی ہے کہ کیا بھارت مخالف لابی ملک کے امیج کو خراب کرنے کی سازش کر رہی ہے۔"

تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS

کووڈ کے کوریج پر بھی پابندی

بات صرف سوشل میڈیا پوسٹس ہٹانے تک ہی محدود نہیں ہے، حکومت کی نکتہ چینی کرنے والوں کو کئی دوسرے خطرات بھی لاحق ہیں۔

اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ نے گزشتہ ہفتے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے کہ ہسپتالوں میں آکسیجن نہیں ہے جیسی 'افواہیں‘ پھیلانے والوں پر سیاہ قانون نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی اور ان کے جائیداد اور اثاثوں کو ضبط کر لیا جائے گا۔

لکھنؤ میں ایک صحافی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ حقیقی صورت حال کی رپورٹنگ کرنے والے نامہ نگاروں کے لیے محض دھمکی نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتہائی مشکل صورت حال ہے۔

ایک غیر ملکی میڈیا گروپ کے لیے کام کرنے والے صحافی نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بھی حکومت کی طر ف سے سخت دباو کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ ا نہیں کہا جارہا ہے کہ ایسی خبریں نہ دیں جو دنیا بھر میں میڈیا کی سرخیاں بن جائیں۔ انہوں نے بتایا ”جب ہم نے یہ خبر دی کہ وبا کی وجہ سے اموات کے اعدادو شمار چھپائے جارہے ہیں تو ہمیں حکومت کے کئی اہم افراد کی طرف سے فون آنے شروع ہوگئے۔"

ایک دیگر غیرملکی سرکاری براڈکاسٹر کے انڈیا بیورو چیف نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”گوکہ براہ راست کوئی دباو یا حکم تو نہیں ملا ہے کیونکہ اس سے حکومت کے امیج پر الٹا اثر پڑے گا لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ٹرول کرنے والوں کا منظم گروپ ہماری خبروں کو سوشل میڈیاجھوٹا ثابت کرنے کی مہم چلاتا ہے۔"

سیونتی نینان کا کہنا ہے کہ حکومت کوسب سے زیادہ پریشانی غیرملکی میڈیا سے ہے کیونکہ ان پر اس کاکوئی کنٹرول نہیں ہے۔

تصویر: Amit Dave/REUTERS

بھارت میں میڈیا کی صورت حال

کورونا وائرس کے بحران سے نمٹنے میں حکومت کے اقدامات کی نکتہ چینی کرنے والے کئی صحافیوں کو گزشتہ برس بھی ہراساں کیا گیا تھا۔ بعض کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔

سرکاری حکام نے وبا کے دوران سرکاری بدعنوانی اور ڈاکٹروں کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے والے بعض صحافیوں کے خلاف ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کردیا تھا۔

خیال رہے کہ رپورٹرز ودآواٹ بارڈر نامی بین الاقوامی تنظیم نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں بھارت کو'خراب‘صحافت والے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا ہے ا ور اسے صحافیوں کے لیے دنیا کے سب سے خطرناک ملکوں میں قرار دیا ہے۔

دریں اثنا ورلڈ پریس فریڈم انڈکس2021 میں بھارت مسلسل دوسرے برس بھی 180ملکوں کی فہرست میں 142ویں مقام پر ہے۔

 جاوید اختر(مرلی کرشنن)

پاکستان کا بھارت کے ساتھ اظہار یکجہتی

02:07

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں