امریکا کی چار سو سے زائد یونیورسٹیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ داخلے کے لیے صرف ایسے بھارتی طلبہ کی درخواستوں پر غور کریں گی جنہوں نے ڈبلیو ایچ او سے منظور شدہ ویکسین لگوائی ہے۔
اشتہار
بھارت میں کووڈ انیس کے لیے فی الحال دو طرح کے ویکسین دستیاب ہیں، ان میں سے ایک ملکی کمپنی بھارت بائیو ٹیک کی تیار کردہ 'کو ویکسین‘ کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ابھی تک منظوری نہیں دی۔ جن طلبہ نے یہ ویکسین لگوائی ہے، انہیں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اب وہ کیا کریں؟
اگست کے اواخر تک اعلٰی تعلیم کے لیے امریکا جانے والے بھارتی طلبہ ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں نے ہدایت جاری کی ہے کہ ان کے پاس کووی شیلڈ ویکسین لگوانے کے ثبوت ہونے چاہئیں، کیونکہ بھارت میں جو دو طرح کی ویکسین دستیاب ہے ان میں آ کسفورڈ۔آسٹرازینیکا کی کووی شیلڈ ہی ڈبلیو ایچ او سے منظور شدہ ہے۔
حصول علم کے لیے طالب علم کن ممالک کا رخ کرتے ہیں؟
ایک جائزے کے مطابق گزشتہ برس پانچ ملین سے زائد طالب علموں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دیگر ممالک کا رخ کیا۔ سن 2016 کے دوران اعلیٰ تعلیم کے کے حصول کے لیے بیرون ملک جانے والے طلبا کے پسندیدہ ترین ممالک پر ایک نظر۔
تصویر: Fotolia/Monkey Business
1۔ امریکا
امریکا غیر ملکی طالب علموں کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے والوں میں سے 19 فیصد نے امریکی جامعات کا انتخاب کیا۔
تصویر: Imago Images/Xinhua/W. Lie
2۔ برطانیہ
طالب علموں کی دوسری پسندیدہ ترین منزل برطانیہ ہے۔ برطانوی یونیورسٹیوں میں 8.5 فیصد بین الاقوامی طالب علم زیر تعلیم رہے۔
تصویر: Migrant Voice
3۔ آسٹریلیا
تیسرے نمبر پر بھی انگریزی زبان میں تعلیم دینے والا ایک اور ملک آسٹریلیا رہا۔ مجموعی طور پر بین الاقوامی طالب علموں میں سے 6.6 فیصد نے آسٹریلوی جامعات کا انتخاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. He
4۔ جرمنی
جرمنی قومی سطح پر انگریزی زبان نہ بولنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر رہا اور 4.9 فیصد انٹرنیشنل طلبا نے جرمن جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture alliance/ZB/J. Woitas
5۔ فرانس
دنیا بھر سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک جانے والوں میں سے فرانس کے حصے میں 4.8 فیصد طالب علم آئے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/M. Clement
6۔ روس
غیر ملکی طالب علموں کی چھٹی پسندیدہ منزل روس تھا، جہاں مجموعی طور پر انٹرنیشنل طالب علموں میں سے 4.8 فیصد نے تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: Getty Images/J. Koch
7۔ کینیڈا
کینیڈا میں بھی تعلیم انگریزی زبان میں دی جاتی ہے۔ 3.7 فیصد غیر ملکی طالب علموں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا کی جامعات کو ترجیح دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Bobylev
8۔ جاپان
سن 2016 کے دوران 2.8 فیصد بین الاقوامی طلبا نے جاپان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Bridgestone World Solar Challenge
9۔ چین
چینی کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد مجموعی عالمی تعداد کا 2.8 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: DW/Vivien Wong
10۔ ملائیشیا
ملائیشیا غیر ملکی طالب علموں کی دسویں پسندیدہ منزل رہا، جہاں کی جامعات میں انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کی تعداد کے 2.4 فیصد حصے نے حصول تعلیم کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/A. Cupak
10 تصاویر1 | 10
جائیں تو جائیں کہاں
ایک طرف ویکسین کی دوسری خوراک لگوانے میں کافی طویل وقفہ اور دوسری طرف کووی شیلڈ کی کم دستیابی نے طلبہ کی پریشانیاں مزید بڑھادی ہیں۔ انہیں یہ فکر کھا ئے جا رہی ہے کہ آیا روانگی کی مقررہ وقت تک وہ ویکسین لے بھی پائیں گے۔ 'کوویکسن‘ لے چکے طلبہ کی مصیبت دوسری ہے کہ انہیں اب کیا کرنا ہوگا؟
اشتہار
کینیڈا کی حکومت نے بھی اپنی سرکاری ویب سائٹ پر بتایا ہے کہ کینیڈا میں صرف کووی شیلڈ ویکسین ہی منظور شدہ ہے۔ کوویکسین کے بارے میں اس نے کوئی اطلاع نہیں دی ہے جس کی وجہ سے کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے خواہش مند طلبہ بھی پریشان ہیں۔
بھارت سے ہر سال تقریباً دو لاکھ طلبہ امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ امریکا میں بین الاقوامی طلبہ کے لحاظ سے دوسری سب سے بڑی تعداد بھارتی طلبہ کی ہے۔
تعلیم کہاں کہاں اور کیسے کیسے
تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور سیکھنے کا عمل پوری دنیا میں جاری ہے لیکن بچے کن حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ یہ عمل پوری دنیا میں بڑا متنوع ہے۔ دنیا کے مختلف اسکولوں کا ایک چھوٹا سا سفر۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
افغانستان
مہاجرہ ارمانی افغانستان کے شمالی شہر جلال آباد میں بچیوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود اب افغانستان میں اسکول جانے والی چھوٹی عمر کی بچیوں کی تعداد چوہتر فیصد ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/Parwiz
جاپان
ٹوکیو کے ایک اسکول میں بچے دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔ جاپانی نظام تعلیم کا شمار دنیا کے بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ جاپانی اسکول سسٹم دنیا کے لیے رول ماڈل بن چکا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
برازیل
برازیل کے ان بچوں کا اسکول مسلسل ہلتا رہتا ہے۔ برازیلی دریاؤں پر بنائے جانے والے ایسے سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار بہت اچھا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کا امیر یا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجتا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
امریکا
امریکا کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن تعلیمی میدان میں امریکا بھی عدم مساوات کا شکار ہے۔ اسکولوں کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ لاطینی امریکی نسل کے بچوں اور سیاہ فاموں کی نسبت سفید فام بچوں کو اچھی تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Young
ویتنام
تیسری جماعت کے یہ بچے بغیر بجلی اور بغیر کتابوں کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ استانی بچوں کو مقامی زبان ’ہمونگ‘ سکھا رہی ہیں۔ لیکن خراب تعلیمی حالات کے باوجود ویتنام کے طالب علم بین الاقوامی ’پیزا سروے‘ میں اپنا مقام بہتر بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kham
برطانیہ
انگلینڈ میں اسکول یونیفارم پہننے کی ایک طویل روایت ہے۔ جرمنی اور کئی دیگر یورپی ملکوں کے برعکس برطانیہ میں طلبہ کا ایک جیسا لباس ضروری ہے۔ یہ روایت کب اور کہاں سے چلی، واضح نہیں ہے اور نہ ہی ملک میں ایسا کوئی قانون ہے، جو طلبا و طالبات کی یونیفارم سے متعلق وضاحت کرتا ہو۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
پاکستان
پاکستان میں نجی اسکولوں کا معیارِ تعلیم سرکاری اسکولوں سے بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن ایسے غریب شہری بھی موجود ہیں، جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھی بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اسلام آباد کے ماسٹر ایوب کھلے آسمان تلے ایسے ہی غریب اور نادار بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
مراکش
مراکش کے دارالحکومت رباط میں پرائمری اسکول کے کمرے اکثر رنگین ہوتے ہیں۔ ابتدائی سالوں میں بچوں کے اسکول جانے کی شرح بہت اچھی ہے اور تقریباﹰ بانوے فیصد بچے بچیاں اسکول جاتے ہیں۔ پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد نصف رہ جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Boudlal
کینیا
اس افریقی ملک میں سن دو ہزار تین سے تمام بچے بغیر کوئی فیس ادا کیے پرائمری اسکول جا سکتے ہیں۔ تاہم اس نئے قانون کے بعد ضروری سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور اب اسکولوں میں سہولیات کم اور بچے زیادہ ہیں۔
تصویر: Reuters/N. Khamis
ملائشیا
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے عالمی پروگرام ’پیزا‘ کے مطابق ملائشیا کے اسٹوڈنٹس اپنے آپ خوش قسمت ترین قرار دیتے ہیں۔ اس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں میں بھی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Harris
یوکرائن
اس ملک میں بچوں کو پہلی کلاس میں ہی کوئی نہ کوئی غیر ملکی زبان سکھانا شروع کر دی جاتی ہے جبکہ کئی اسکولوں میں پانچویں کلاس میں دوسری غیر ملکی زبان سیکھنا بھی لازمی ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Garanich
چلی
لگتا تو نہیں لیکن یہ پہلی کلاس کے طلبا و طالبات ہیں۔ چلی کے دارالحکومت میں یہ خواتین و حضرات شام کی کلاسیں لیتے ہیں۔ چلی میں تعلیمی نظام تقریباﹰ مکمل طور پر نجی شعبے کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں غریب گھرانے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجوا سکتے۔
تصویر: Reuters/I. Alvarado
12 تصاویر1 | 12
حکومت سے شکایت
تجزیہ کار اور ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت کی حکومت کو اس سلسلے میں قبل از وقت ہی غور کرنا چاہیے تھا۔ اسے جب یہ معلوم تھا کہ کوویکسین کو ابھی تک بین الاقوامی سطح پر منظوری نہیں ملی ہے اس کے باوجود اس نے طلبہ کو اس سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟
کیریئر کے سلسلے میں مشورے دینے والی کمپنی ریچ آئی وی ڈاٹ کوم کی سی ای او ویبھا کاغذی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں کوویکسین بیرونی ملکوں کے ذریعہ منظور شدہ ویکسین کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ''وہ کووی شیلڈ کو بھی متبادل کے طور پر پیش نہیں کرتے ہیں اس لیے اگر بھارت میں کسی طالب علم نے کووی شیلڈ کی ایک ڈوز لے لی ہے تو اسے دوسری ڈوز بھی بھارت میں ہی لینا ہو گی یا پھر اسے امریکا میں منظور شدہ کسی دوسری کمپنی کی ویکسین لگوانا ہو گی۔ لیکن اس سے صحت کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اسی لیے امریکا کی بہت سی یونیورسٹیوں نے طلبہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسی ویکسین لگوائیں جنہیں بین الاقوامی ایجنسیوں سے منظوری حاصل ہو۔‘‘
امریکا میں طلبہ کو فائزر، موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔
بائیو ایتھیکس اینڈ گلوبل ہیلتھ سے وابستہ محقق ڈاکٹر اننت بھان نے تاہم طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ پریشان نہ ہوں۔ ڈاکٹر بھان کا کہنا تھا، ''سکون سے رہیں اور انتظار کریں۔ امید کریں کہ کوویکسین کو بھی کچھ دنوں کے بعد ڈبلیو ایچ او سے ضروری منظوری مل جائے گی۔ بھارت بایو ٹیک کمپنی کو بھی اس سلسلے میں سنجیدہ کوشش کرنا چاہیے۔‘‘
جرمنی میں پڑھنے والے طالب علموں کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمن مرکز برائے جامعات و تحقیق کے مطابق سن 2017/18 کے موسم گرما کے سمسٹر میں 2 لاکھ 82 ہزار غیر ملکی طالب علموں کو جرمن یونیورسٹیوں میں داخلہ دیا گیا۔ بین الاقوامی طالب علموں میں سے زیادہ تر کا تعلق ان ممالک سے ہے۔
تصویر: imago/Westend61
1۔ چین
سن 2018 میں جرمن یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے غیر ملکی طالب علموں میں سے تیرہ فیصد سے زائد کا تعلق چین سے تھا۔ چینی طالب علموں کی تعداد 37 ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: picture-alliance
2۔ بھارت
دوسرے نمبر پر بھارتی طالب علم رہے۔ گزشتہ برس 17 ہزار سے زائد بھارتی شہری جرمن یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: Melissa Bach Yildirim/AU Foto
3۔ آسٹریا
جرمنی کے پڑوسی ملک آسٹریا سے تعلق رکھنے والے گیارہ ہزار سے زائد طالب علم بھی گزشتہ برس جرمنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
4۔ روس
گزشتہ برس جرمن جامعات میں پڑھے والے روسی طالب علموں کی تعداد بھی 11800 تھی۔
تصویر: Privat
5۔ اٹلی
یورپی ملک اٹلی سے تعلق رکھنے والے قریب 9 ہزار طالب علم جرمنی میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: DW/F. Görner
6۔ شام
سن 2015 میں اور اس کے بعد بھی لاکھوں شامی مہاجرین جرمنی پہنچے تھے اور اسی وجہ سے جرمن یونیورسٹیوں میں شامی طالب علموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد شامی شہری مختلف جرمن جامعات میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Schmidt
7۔ ترکی
گزشتہ برس کے دوران سات ہزار چھ سو سے زائد ترک شہریوں کو بھی جرمن جامعات میں داخلہ ملا۔
تصویر: DW/Sabor Kohi
8۔ ایران
ایرانی طالب علموں کی بڑی تعداد بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی کا رخ کرتی ہے۔ گزشتہ برس جرمن جامعات میں زیر تعلیم ایرانیوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9۔ کیمرون
افریقی ملک کیمرون سے تعلق رکھنے والے سات ہزار تین سو طالب علم گزشتہ برس جرمنی میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
پاکستانی طالب علم بیسویں نمبر پر
سن 2018 میں قریب پانچ ہزار پاکستانی طالب علم مختلف جرمن یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔