کوڑے کے ڈبے سے معروف آرٹسٹ کے اسکیچ چرانے والے کو جرمانہ
28 اپریل 2019
جرمنی میں ایک ایسے شخص کو ہزاروں یورو جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے، جو ایک معروف آرٹسٹ کے گھر کے باہر کوڑے کے ڈبے سے اس فنکار کے بنائے ہوئے اسکیچ چرا لیتا تھا۔ ملزم نے بعد ازاں یہ اسکیچ فروخت کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
اشتہار
جرمنی کے شہر کولون سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس فنکار کا نام گیرہارڈ رِشٹر ہے، جن کا شمار ملک کے بیسٹ سیلر آرٹسٹوں میں ہوتا ہے۔ ملزم کی عمر 49 سال ہے اور وہ کولون شہر کے ایک مہنگے رہائشی علاقے میں اکثر اس لیے جاتا تھا کہ گیرہارڈ رِشٹر کے گھر کے باہر کوڑے کے ڈبے سے ایسے اسکیچ تلاش کر سکے، جنہیں بنانے کے بعد رِشٹر ان سے غیر مطمئن ہو کر انہیں کوڑے میں پھینک دیتے تھے۔
اس ملزم اور اس کی حرکات کا علم ہونے کے بعد آرٹسٹ کی شکایت پر پولیس نے اسے گرفتار کر لیا تھا اور اس کے خلاف چوری کے الزام میں مقدمے کی کارروائی بھی شروع ہو گئی تھی۔
ڈی پی اے کے مطابق اس ملزم کو اسی ہفتے عدالت نے 3150 یورو یا 3529 امریکی ڈالر کے برابر جرمانے کی سزا بھی سنا دی۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق اس ملزم نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، گیرہارڈ رِشٹر کی رہائش گاہ کے باہر کاغذی کوڑے کے ڈبے سے اس فنکار کے بنائے ہوئے کئی اسکیچ چرائے تھے اور پھر انہیں ایک نیلام گھر کے ذریعے فروخت کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
اس جرمن آرٹسٹ کے بنائے ہوئے ان اسکیچز اور ڈرائنگز پر ان کے دستخط نہیں ہیں مگر ان کی مجموعی مالیت کا اندازہ تقریباﹰ 60 ہزار یورو یا 67 ہزار امریکی ڈالر کے برابر لگایا گیا ہے۔ گیرہارڈ رِشٹر کا شمار جرمنی میں عہد حاضر کے اہم ترین اور معروف ترین مصوروں میں ہوتا ہے۔
عدالت نے اس مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’اگرچہ ان اسکیچز اور پینٹنگز کو قانونی طور پر فروخت نہیں کیا جا سکتا تھا مگر ان کی قدر و قیمت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مزید یہ کہ اگرچہ گیرہارڈ رِشٹر نے انہیں کوڑے میں پھینک دیا تھا، تاہم قانونی طور پر وہ پھر بھی اسی آرٹسٹ کی ملکیت تھے۔‘‘
اس مقدمے کے پانچ گواہوں میں خود گیرہارڈ رِشٹر بھی شامل تھے مگر ان کے وکیل کے مطابق وہ اس کارروائی میں عدالت کی اجازت سے اس لیے شریک نہیں ہوئے تھے کہ انہیں علاج کی غرض سے ایک ہسپتال میں قیام کے بعد گھر پر آرام کی ضرورت تھی۔
گیرہارڈ رِشٹر کے قانونی مشیر کے مطابق اس 87 سالہ آرٹسٹ کو اس مقدمے میں ملزم کو سزا سنائے یا نہ سنائے جانے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور ’’ان کی خواہش صرف یہ تھی کہ، جیسا کہ خود ان کا شروع میں اپنا ارادہ بھی تھا، ان کی یہ تمام تخلیقات تلف کر دی جائیں۔‘‘
م م / ا ا / ڈی پی اے
یمن، امن کی ترویج آرٹ سے
یمن میں ایک اسٹریٹ آرٹسٹ نے صنعا کے مقامی رہائشیوں کو مدعو کیا ہے کہ وہ گلیوں میں اپنی مرضی کی تصاوير بنائیں، موضوع لیکن یمن کے خانہ جنگی اور شورش ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Gateau
شعور و آگہی
مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے دس شہروں میں ’اوپن ڈے فار آرٹ‘ کے موقع پر مراد سوبے نامی مصور کی جانب سے منعقدہ گلیوں میں تصویری اظہار کے ایونٹ میں مقامی لوگ شریک ہوئے اور انہوں نے اس کاوش کا خیر مقدم کیا۔ گلیوں میں تصاویر بنانے کے اس عمل میں ہر عمر کے مصور اور طالب علم یمن میں امن کی ترویج کے لیے شعور و آگہی پھیلا رہے ہیں۔
تصویر: Najeeb Subay
امن کا پیغام
اس ایونٹ کے بعد، جو ایک ہی وقت میں یمن کے چھ مختلف علاقوں بہ شمول مارب شہر میں منعقد ہوا، مراد سوبے نے کہا، ’’اس ایونٹ کا پیغام نہایت سادہ ہے۔ اس میں حصہ لینے والے ایک امید کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ملک کے اس انتہائی مشکل دور میں کیا محسوس کر رہے ہیں۔ یہ اقدام امن کی ترویج سے بھی عبارت ہے۔‘‘
جنوبی کوریا کے شہر گوانگجو میں اس تصویری نمائش میں سو سے زائد افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایونٹ کے منتظم من ہی لیز، جو خود بھی کوریائی جنگ کا حصہ رہے، نے کہا کہ نمائش دیکھنے آنے والوں پر ان تصاویر کا نہایت مثبت اثر ہوا۔ ’’امن کبھی کسی ایک شخص کی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ مگر مراد اور ہماری ملاقات سے ہم نے یہ سیکھا کہ دل جنگ سے نفرت کریں تو امن کے قریب آ جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: Heavenly Culture/World Peace/Restoration of Light Organization
بھرپور تعاون
تعز شہر میں اس نمائش میں مقامی افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ دیگر یمنی شہروں کی طرح یہاں بھی ایسا ایک ایونٹ رکھا گیا تھا۔ عدن اور حدیدہ میں بھی ایسی ہی نمائشیں منعقد ہوئیں۔ یمنی تنازعے کو خطے کے ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ بھی قرار ديتے ہيں۔ اس جنگ میں پانچ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Odina for Artistic Production
ایک گہرا پیغام
مصور صفا احمد نے مدغاسکر کے دارالحکومت انتاناناریوو میں ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں بچوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی محسوسات کا تصویری اظہار کریں۔ یہ وہ بچے تھے، جو اپنے ماں باپ کھو چکے تھے۔ اس طرح ایک نہایت گہرا اور دل کو چھو لینے والا پیغام دیا گیا۔
تصویر: Raissa Firdaws
ایک مسکراہٹ بھی
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں یمنی اسٹونٹ یونین کی مدد سے کلچرل ڈائورسٹی آرگنائزیشن نامی تنظیم نے ورلڈ کلچر اوپن کے نام سے ایک تقریب منعقد کی۔
تصویر: Yemeni Student Union/World Culture Open
تعریف پیرس سے بھی
پیرس میں قریب 25 افراد نے اس مہم کے تحت ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس تقریب کی آرگنائز خدیجہ السلامی، جو خود ایک فلم ساز ہیں، نے بتایا کہ وہ کیوں اس مہم میں شامل ہوئیں۔ ’’یہ بہت اہم تھا کہ مراد کے ساتھ مل کر یمنی شہریوں کو درپیش مشکلات اور پریشانیوں کو تصویری شکل میں دنیا کے سامنے لایا جائے۔‘‘
تصویر: Khadija Al-Salami
امن کی مہم پھیلتی ہوئی
مراد کی یہ آرٹ مہم بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوتی جا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت جنگ کے عام شہریوں پر پڑنے والے اثرات، جبری گم شدگیوں، ہیضے کی وبا اور ڈرون حملوں جیسے امور کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ آئندہ مہنیوں میں کینیڈا، امریکا اور جبوتی تک میں اس مہم کے تحت تصویری نمائشیں اور تقاریب منعقد کی جائیں گی۔