کوک اسٹوڈیو: پاکستان میں موسیقی کا شاندار تجربہ
19 اگست 2009پاکستان میں موسیقی کی بنیادیں کافی پرانی ہیں۔ ملک میں ایک طرف مشرقی کلاسیکی گھرانے کافی عرصے تک موسیقی کے خدمت کرتے رہے تو دوسری طرف مقامی فوک گلوگاروں نے بھی اپنی پرسوز آواز اور روایتی مشرقی سازوں کی مدد سے عوام کے جذبات کی بھرپور نمائندگی کی۔ ساتھ ہی مغربی موسیقی نے بھی گذشتہ تین عشروں میں پاکستانی نوجوانوں کو متاثر کیا اور یوں پاپ اور روک میوزک کے بڑے بڑے نام اور بینڈز منظرعام پر آئے۔
امریکہ میں نائن الیون کے سانحے اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات کے بعد پاکستان میں موسیقی کا یہ سلسلہ رک سا گیا تھا۔ ہم نے پاکستان کے نامور میوزیشن اور مشہور زمانہ گیت 'دل دل پاکستان' کے کمپوزر، روحیل حیات سے پوچھا کہ نائن الیون اور پھر دنیا بھر میں انتہاپسندی کے واقعات کے ساتھ ساتھ، پاکستان میں شدت پسندی کی اثرات نے وہاں کے فنکاروں کو کس حد تک متاثر کیا؟ اور پھر ان حالات میں کوک اسٹوڈیو کا آئیڈیا انہیں کیسے آیا؟ روحیل کہتے ہیں کہ نوجوانی کے دور سے ہی وہ مغربی مزاج اور رنگ ڈھنگ رکھتے تھے۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد کے واقعات ان کے اندر مختلف سوالات نے جنم لیا۔ ان سوالات میں سب سے اہم سوال شناخت کا تھا، جس کو تلاش کرتے کرتے ان کو پاکستانی فوک اور کلاسیکل موسیقی کا خزانہ مل گیا۔ کوک اسٹوڈیو کا آئیڈیا بھی اسی شناخت کا اظہار ہے۔
کوک اسٹوڈیو کے اب تک دو سیزن ہو چکے ہیں، جن کو پاکستانی ٹی وی چینلز پر ایک ساتھ، ایک ہی وقت میں نشر کیا جاتا ہے۔ سیزن ٹو کا حالیہ پروگرام، جس کی تھیم Unity یعنی اتحاد رکھی گئی تھی، 14 اگست کو نشر کیا گیا۔ اس اسٹوڈیو میں بطور مہمان شرکت کرنے والے مشرقی کلاسیکی موسیقاروں میں، استاد گلو خان اور طفیل احمد سے لے کر شفقت امانت علی خان، راحت فتح علی خان اور جاوید بشیر نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
فوک گلوکاروں میں سے اریب اظہر اور سائیں ظہور نے شرکت کی جبکہ ملک میں پاپ میوزک کے مشہور گلوکاروں مثلًا عاطف اسلم، علی عظمت، علی ظفر، زیب اور ہانیہ، اور ساجد اینڈ ذیشان کے ساتھ ساتھ روک میوزک کی دنیا کے بڑے بڑے بینڈز اسڑنگز، جوش اور نوری نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ دوسرے موسیقار کوک اسٹوڈیو کے مستقل ارکان کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان فنکاروں میں سے اومران شفیق اور اسد گٹار پر، جعفر زیدی اور جاوید اقبال، پیانو اور وائلن پر، گمبی اور گل محمد، ڈرمز اور سارنگی پر، جبکہ گرپریت چنا اور وارث علی طبلہ اور ڈھولک بجاتے ہیں۔
پاکستان میں ان دنوں پاپ اور روک میوزک کے ساتھ ساتھ کلاسیکل میوزک بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان دنوں پاکستان کو دوسرے بہت سے مسائل کے علاوہ طالبان عسکریت پسندی، معاشرتی انتہاپسندی، فرقہ واریت، نسلی بنیادوں پر مختلف قومی گروپوں کے مابین تعصب اور معاشی بحران کے باعث بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عوام میں بہتر مستقبل کی امید کم ہوتی جا رہی ہے، شہر لاہور میں کوک اسٹوڈیو کے نام سے ملک کا ایک اہم میوزک پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ سے ملک کے تجربہ کار اور نوجوان فنکاروں کو آپس میں قریب آنے اور بحرانی حالات میں اپنے فن کا اظہار کرنے کا موقع ملا ہے۔
کہاوت ہے کہ بہترین موسیقی اور بڑا آرٹ زیادہ تر اس وقت وجود میں آتے ہیں جب کوئی معاشرہ بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہو۔ بیسویں صدی میں قوموں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ کہاوت کئی ملکوں پر صادق آتی ہے۔ چاہے وہ30 کی دہائی کا معاشی بحران ہو، جب روس اور یورپی ممالک کے ادیبوں اور موسیقاروں کی فنکارانہ صلاحیتیں ایک دم نکھر کر سامنے آئیں، یا 60 کی دہائی میں ویت نام کی جنگ ہو، جس کے نیتجے میں شروع ہونے والی کاؤنٹر کلچرل موومنٹ سے مغربی ممالک میں روک اور پاپ میوزک کے بڑے بڑے نام پیدا ہوئے۔ کیا کوک اسٹوڈیو بھی پاکستانی سماج کے لئے اسی قسم کا کردار ادا کررہا ہے، روحیل حیات کہتے ہیں کہ ہم اپنے مسائل کا حل اس وقت تک تلاش نہیں کرسکتے جب تک ہم یہ نہیں مان لیتے کہ ہمارے چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور ہمیں بحیثیت قوم اس آگ سے خود ہی نکلنا ہے۔
اسی تناظر میں پاکستان کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں جہاں ایک طرف طالبان عسکریت پسند اور معاشرتی انتہاپسندی ہے، تو دوسری طرف حساس طبیعت رکھنے والے موسیقار اور گلوکار ہیں۔ ان گلوکاروں میں سے ایک نوجوان، اومران شفیق ہیں، جو کوک اسٹوڈیو کا مستقل حصہ ہیں اور گٹار بجاتے ہیں، نے ہمیں اس نئے میوزیکل تجربے کے بارے میں بتایا کہ ان کو کوک اسٹوڈیو کی صورت میں امید کی ایک نئی کرن نظر آئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس پلیٹ فارم سے تجربہ کار اور نوجوان گلوکاروں اور موسیقاروں کو موجودہ حالات میں اپنے دل کی بات کہنے کا موقع ملا ہے۔
تحریر: انعام حسن
ادارت: امجد علی