کوک اسٹوڈیو، کامیابی کا آٹھواں سال
1 ستمبر 2015کوک اسٹوڈیو کے آٹھویں سیزن میں 31 گلوکاروں اور 13 موسیقاروں نے اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ ان میں فریدہ خانم ، علی ظفر، عاطف اسلم، علی عظمت، میکال حسن، کرم عباس، علی حیدر، علی سیٹھی، عارف لوہار، ثریا خانم، انور مقصود، حامد علی خان، ملازم حسین، عمیر جسوال، بخشی برادرز، فضہ جاوید، گل پَنرا، نبیل شوکت علی ، اور قراہ العین بلوچ بھی شامل ہیں۔
موسیقی کے معروف بھارتی پروگرام سُرکشیترا میں پہلے نمبر پر آکر شہرت پانے والے پاکستان کے نوجوان گلوگار نبیل شوکت علی کا کوک اسٹودیو کے لیے گانے کا یہ پہلا تجربہ ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ تجربہ بہت اچھا رہا ہے۔ نبیل کے مطابق بھارتی پروگرام سُر کشیترا سے دوسروں کے گائے ہوئے گانے گا کر میں نے اپنے موسیقی کے کیرئیر کا آغاز کیا تھا لیکن کوک اسٹوڈیو میں میں نے اپنا کمپوز کیا ہوا گیت ’بے وجہ‘ گا کر اپنی الگ پہچان بنائی ہے: ’’میرے لیے آشا پوسلے اور لتا جی کے سامنے گانا بھی ایک اعزاز کی بات تھی لیکن کسی کا گایا ہوا گانا تو کسی کا ہی ہوتا ہے۔ کوک اسٹوڈیو میں اپنا گانا گا کر مجھے میری پہچان ملی ہے جو میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے۔‘‘
نبیل کو خوشی ہے کہ پاکستان میں موجود شاندار ٹیلنت کو کوک اسٹوڈیو کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع مل رہے ہیں لیکن ان کی خواہش ہے کہ پاکستان کی حکومت اور دیگر نجی ادارے بھی آرٹ اور موسیقی کے فروغ کے لیے آگے آئیں۔
نبیل شوکت کہتے ہیں کہ میوزک ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اسے معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول پاکستان میں فلم انڈسٹری ریوائیو ہونا شروع ہو گئی ہے اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو رہا ہے کہ نئی آوازیں اور نئے گلوکار سامنے آ رہے ہیں اور نیا ٹیلنٹ انڈسٹری کو ملنا شروع ہو گیا ہے: ’’اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان فنکاروں کی وجہ سے دنیا کے سامنے پاکستان کا سافٹ امیج بھی اجاگر ہو رہا ہے۔‘‘
آرکسٹرا کی دم توڑتی روایت کے لیے نئی زندگی
پاکستان کی معروف گلوکارہ شازیہ منظور نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو بھی کوک اسٹوڈیو میں گانا اچھا لگا ہے۔ ان کے بقول کوک اسٹوڈیو نے پاکستان میں آرکسٹرا کی دم توڑتی ہوئی روایت کو ایک مرتبہ پھر نئی زندگی عطا کی ہے۔
ان کے بقول کوک اسٹوڈیو پاکستان میں موسیقی کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے: ’’کوک اسٹوڈیو کے ذریعے ساٹھ اور ستر کی دھائی کے مقبول گیت جب ہمارے نوجوان سنتے ہیں تو ان میں پاکستانی موسیقی کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش پیدا ہو رہی ہے اور نوجوان سنگرز یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ماضی کے مقبول گیتوں کو کس کس نے اور کیسے کیسے گایا تھا، اس طرح پاکستانی کی موسیقی اور تاریخ کی جڑوں کے ساتھ ان کی وابستگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
صوفیانہ پیغام کی ترویج
شازیہ منظور کہتی ہیں کہ پاکستان فوک موسیقی کی دولت سے مالا مال ہے۔ شازیہ منظور نے کوک اسٹوڈیو میں امیر خسرو کا کلام گایا ہے۔ وہ کہتی ہیں،’’صوفیانہ کلام دل اور روح کو نرم کرتا ہے۔ صوفیا کرام انسانوں کو ذات الہی کی طرف رجوع کرنے اور انسانیت کی بھلائی کا پیغام دیتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق کوک اسٹوڈیو کے ذریعے صوفیانہ کلام جب عوام تک پہنچتا ہے تو اس کے معاشرے پر بہت اچھے اثرات رونما ہوتے ہیں۔ ایسے گیتوں کے ذریعے عوام تک پیغام بھی پہنچتا ہے، ’’میں نے فیس بک پر لوگوں کے کمنٹس پڑھے ہیں، وہ صوفیانہ کلام کے ترجمے کی فرمائش کر رہے ہیں اور اس طرح یہ پیغام معاشرے میں صوفیا کرام کی تعلیمات کے فروغ کا باعث بھی بن رہا ہیں۔‘‘
کوک اسٹوڈیو کے تازہ سیزن میں عاطف اسلم کا گایا ہوا وہ کلام ’تاجدار حرم، ہو نگاہ کرم‘ بہت مقبول ہو رہا ہے جسے ماضی میں صابری برادران گاتے رہے ہیں۔ اسی طرح کوک اسٹوڈیو کا تیار کردہ ملی نغمہ ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے‘ بھی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کوک اسٹوڈیو کا پاکستان میں آغاز 2008 میں ہوا تھا۔ پہلے اسے روحیل حیات پروڈیوس کیا کرتے تھے لیکن آج کل معروف پاکستانی بینڈ اسٹرنگز کے بلال مقصود اور فیصل کپاڈیہ اسے تیار کرتے ہیں۔ کوک اسٹوڈیو کے آٹھویں سیزن کی سات قسطیں ہیں اور ہر قسط اتوار کے روز پاکستان کی ٹی وی چینلز کے ذریعے پیش کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی یہ گیت سنے جا رہے ہیں۔ ایک موبائل فون کمپنی نے بھی ایک مخصوص رقم کے عوض اپنے گاہکوں کو یہ گیت کالر ٹون بنانے کی پیشکش بھی کی ہے۔
پاکستان میں فنون لطیفہ اور موسیقی کے امور سے گہری شناسائی رکھنے والے ایک ممتاز ماہر پیرزادہ سلمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کوک اسٹوڈیو کے ذریعے بہت اچھے گیت سننے کو مل رہے ہیں۔ ان کے بقول ان گیتوں کو سنتے ہوئے کہیں کہیں یوں لگتا ہے کہ فنی اعتبار سے اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ تاہم پیرزادہ سلمان کی رائے ہے کہ جب آپ بڑا کام کر رہے ہوں تواس طرح کی معمولی لغزشوں کو نظرانداز بھی کیا جا سکتا ہے۔