1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوہستان: پانچوں لڑکیاں خیریت سے ہیں

7 جون 2012

پاکستانی حکام اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ شمالی ضلع کوہستان میں غیرت کے نام پر مبینہ طور پر 5 خواتین کے قتل کا واقعہ درست نہیں۔

تصویر: bilderbox

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کوہستان میں غیرت کے نام پر مبینہ طور پر قتل کی جانے والی 5 خواتین سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا غلام دستگیر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کوہستان جانے والے وفد نے ان دو خواتین سے ملاقات کی ہے جنہیں ایک ویڈیو میں دو لڑکوں کے ڈانس پر تالیاں بجانے کی پاداش میں قتل کرنے کی خبر سامنے آئی تھی۔
اس موقع پر کوہستان جانے والے وفد میں شامل خواتین انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری، رفعت بٹ اور ڈاکٹر فوزیہ سعید بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔ ان خواتین نے بتایا کہ ان کی ملاقات آمنہ اور شاہین نامی خواتین سے ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باقی تین خواتین بازغا ،بیگم جان اور شیریں جان سے دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ملاقات نہیں ہو سکی۔
وفد کے ہمراہ جانے والے کمشنر ہزارہ ڈویژن خالد خان عمرزئی نے عدالت کو بتایا کہ ان کی اطلاع کے مطابق باقی تینوں لڑکیاں بھی محفوظ ہیں۔
عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ باقی تین لڑکیوں سے ملاقات کا بندوبست کریں تا کہ اس بات کو مکمل طور پر یقینی بنایا جا سکے کہ پانچوں خواتین محفوظ ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی سماعت 20 جون تک ملتوی کر دی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کوہستان میں غیرت کے نام پر مبینہ طور پر قتل کی جانے والی 5 خواتین سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کیتصویر: picture-alliance/dpa

خیال رہے کہ ضلع کوہستان کے ایک نوجوان افضل نے میڈیا پر آ کر یہ الزام لگایا تھا کہ اس کے دو چھوٹے بھائیوں گل نظر اور یاسر نے ایک نجی تقریب کے دوران ڈانس کیا جس پر وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائیں۔ اس تقریب کی موبائل فون کے کیمرے پر عکس بندی کی گئی جو بعد میں مقامی افراد کے ہتھے چڑھ گئی۔ ایک مقامی مذہبی لیڈر مولانا جاوید نے یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد پانچوں لڑکیوں کے قتل کا فتویٰ دیا بعد ازاں مبینہ طور پر ان کے سر قلم کر دیے گئے تھے۔
میڈیا پرایسی خبریں آنے کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تاہم وفاقی اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ۔ جس پر عدالت نے گزشتہ روز مقامی انتظامیہ، پولیس اور انسانی حقوق کی کارکنوں پر مشتمل ایک وفد کوہستان بھجوایا تھا۔
جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس واقعہ کی وجہ سے ملک کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہوئی اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ نے بھی ان (چیف جسٹس) سے ملاقات میں پہلا سوال اسی واقعہ سے متعلق کیا تھا۔ تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون کی وجہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ واقعہ درست نہیں تھا۔
دریں اثناء ضلع کوہستان سے تعلق رکھنے والے افضل نامی لڑکے نے سپریم کورٹ کے باہر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہے اور وہ اب بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ لڑکیاں زندہ ہیں۔ افضل کے دونوں بھائی گل نظر اور یاسر خیبرپختونخوا پولیس کی حراست میں ہیں۔


رپورٹ : شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: عدنان اسحاق

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں