امریکا سے اٹھنے والی'بلیک لائیوز میٹر‘ تحریک کے اثرات اب کھیلوں کے شعبے میں بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس تحریک نے کوہ پیمائی کھیل کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
اشتہار
سیاہ فام کوہ پیما میگن مارٹن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب نسلی تعصب کا صفایا ہو جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسپورٹس میں واضح طور پر تعصب موجود نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بطور سیاہ فام کوہ پیما وہ اس کا سامنا کرتی ہیں۔
اس سیاہ فام ایتھلیٹ نے یقین کے ساتھ کہا کہ اس تعصب کو محسوس کرنے کے باوجود وہ پرعزم ہیں کہ وہ اس کا مقابلہ کرتی رہیں گی۔
میگن مارٹن ایک پروفیشنل کوہ پیما ہیں اور کئی بین الاقوامی مقابلوں میں امریکا کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ وہ امریکی ٹیلی وژن شو 'امریکن ننجا واریئر‘ میں بھی حصہ لے چکی ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ خاتون ایتھلیٹ 'بلیک لائیوز میٹر‘ تحریک میں خاصی سرگرم بھی ہیں۔
ان کا یہ کہنا ہے کہ کوہ پیمائی یا کلائمبنگ (Climbing) سے تعلق رکھنی والی کمیونٹی میں بھی نسلی تعصب موجود ہے۔ مارٹن کا مزید کہنا ہے کہ اسپانسر کرنے والی کمپنیاں پیچھے ہٹتے ہوئے دوسرے پہلوؤں پر اب غور کر رہی ہیں اور یہ بھی ان کے سامنے ہے کہ کہاں کہاں انہوں نے سیاہ فام کمیونٹی کو نظر انداز کیا اور اب کیسے اس صورت حال میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی ایتھلیٹس تو ایسی کمپنیوں کی مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
ایسا اندازہ لگایا گیا ہے کہ رنگ و نسل کی بنیاد پر امریکی کوہ پیمائی کے اسپورٹ ڈسپلن میں تعصب کو محسوس کیا گیا ہے۔ سن 2019 میں مکمل کی گئی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق افریقی امریکی ایتھلیٹ کلائمبنگ (کوہ پیمائی) کھیل میں محض ایک فیصد ہیں، جب کہ امریکی آبادی میں ان کا تناسب تیرہ فیصد ہے۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M:.Schreiber
7 تصاویر1 | 7
سیاہ فام امریکی صحافی اور مصنف جیمز ایڈورڈ مِلز کا کہنا ہے کہ کلائمبنگ میں یہ تفریق بھی مہماتی فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ مِلز نے اس تناظر میں مزید کہا کہ کچھ بھی کہا جائے یا اس کو سماجی اور ثقافتی حوالے سے بھی دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کوہ پیمائی یا کلائمبنگ صرف سفید فام افراد کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ ایک انتہائی مہنگی اسپورٹ ہونے کی وجہ سے بھی سیاہ فام ایتھلیٹ اس کی جانب کم توجہ دیتے ہیں۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ کلائمبنگ میں کوئی ایسا نامی گرامی سیاہ فام ایتھلیٹ بھی سامنے نہیں آیا یا ابھرا جو اپنی کمیونٹی کے لیے ایک رول ماڈل بن سکتا۔
بائیس سالہ برطانوی خاتون کوہ پیما مولی تھامسن اسمتھ کا کہنا ہے کہ انہیں بھی متعدد مرتبہ نسلی تعصب کا سامنا رہا ہے۔ تھامسن اسمتھ کے مطابق کلائمبنگ جِم میں کئی دوسرے افراد کے طنزیہ جملے بھی سننے کو ملتے ہیں لیکن انہیں نظرانداز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ایسے جملوں یا مزاح پر مشتعل ہونا تعصب کا جواب نہیں قرار دیا جا سکتا۔
میگن مارٹن کی طرح مولی تھامسن اسمتھ بھی 'بلیک لائیوز میٹر‘ تحریک میں سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ بہتری کی صورت پیدا ہو کر رہے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کھیل میں بہتری پیدا کرنے کے لیے مختلف دوسری جہتوں کو بھی تلاش کرنا ضروری ہے اور اس پیش رفت کے اثرات کلائمبنگ کمیونٹی پر بھی مرتب ہوں گے۔
برلن میں نسلی تعصب اور امتیازی سلوک کے خلاف مظاہرہ