کویتی حکومت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی مستعفی
5 اپریل 2022
خلیجی عرب ریاست کویت کی حکومت اپنے خلاف پیش کردہ پارلیمانی عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ سے پہلے ہی مستعفی ہو گئی۔
تصویر: Xinhua/picture alliance
اشتہار
خلیجی عرب ریاست کویت کی حکومت اپنے خلاف پیش کردہ پارلیمانی عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ سے پہلے ہی مستعفی ہو گئی۔ پارلیمانی رائے شماری سے صرف ایک روز قبل حکومتی ارکان نے پارلیمان میں اپنے استعفے جمع کرا دیے۔
کویتی حکومت کے سربراہ اور ملکی وزیر اعظم کے خلاف پارلیمانی عدم اعتماد کی تحریک پر رائے دہی بدھ چھ اپریل کے لیے طے تھی مگر کابینہ کے ارکان نے ووٹنگ سے چوبیس گھنٹے قبل منگل پانچ اپریل کے روز اپنے استعفے جمع کرا دیے۔ سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق حکومت کا مستعفی ہوجانا ایک ایسے طویل سیاسی تنازعے کا نتیجہ ہے، جس کے باعث خلیج کی تیل پیدا کرنے والی اس عرب ریاست میں مالیاتی اصلاحات کے عمل کو مسلسل رکاوٹوں کا سامنا تھا۔
نے گزشتہ برس کے اواخر میں سربراہ مملکت کے طور پر ملکی امیر کی زیادہ تر ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ انہیں وزیر اعظم شیخ صباح الخالد کی جانب سے ان کے اور ان کی حکومت کے استعفے کا خط باقاعدہ طور پر موصول ہو گیا ہے۔
کویت میں ماضی قریب میں سیاسی رسہ کشی، کابینہ میں بار بار کے رد و بدل اور پارلیمان کے تحلیل کیے جانے کے باعث سرمایہ کاری منصوبوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مالیاتی اور اقتصادی حالات اور اصلاحات کی کوششوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔تصویر: Ysser Al-Zayyat/AFP
شیخ صباح الخالد ملک پر حکمران الصباح خاندان ہی کے رکن ہیں اور وہ 2019ء سے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے۔ انہیں کویتی کابینہ کے سربراہ کے طور پر یکے بعد دیگرے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، جن میں حزب اختلاف کے پارلیمانی اراکین کی طرف سے مبینہ بدعنوانی سمیت کئی موضوعات پر پوچھے جانے والے سوالات بھی شامل تھے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پیش نظر کویت سٹی میں ملکی حکومت نے کئی طرح کی پالیسیوں سے پر عمل کرتے ہوئے کویتی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی تھی تاہم اس دوران مالیاتی اصلاحات کا معاملہ تعطل ہی کا شکار رہا۔ اس دوران عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافے سے حکومت کے لیے کچھ مالی آسانیاں تو پیدا ہوئیں، مگر کویت نے 2017ء سے لے کر اب تک کسی ترقی پذیر ملک کو کوئی بیرونی قرض فراہم نہیں کیا۔
کویت میں ماضی قریب میں سیاسی رسہ کشی، کابینہ میں بار بار کے رد و بدل اور پارلیمان کے تحلیل کیے جانے کے باعث سرمایہ کاری منصوبوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مالیاتی اور اقتصادی حالات اور اصلاحات کی کوششوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
رواں سال فروری میں بھی کویت میں حکمران خاندان ہی سے تعلق رکھنے والے دفاع اور داخلہ امور کے وزراء نے اس لیے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے تھے کہ ان کے بقول کابینہ کے ارکان سے 'بار بار کی بے جا پوچھ گچھ‘ کا رجحان بڑھتا جا رہا تھا۔
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔