کویتی شاہی خاندان میں اختلافات، جابر نے وزارت عظمیٰ رد کر دی
18 نومبر 2019
خلیجی ریاست کویت کے حکمران خاندان میں پیدا ہونے والے شدید اختلافات کے بعد عبوری وزیر اعظم شیخ جابر المبارک نے دوبارہ اس ملک کا وزیر اعظم بننے سے انکار کر دیا ہے۔ انہیں کویت کے امیر نے دوبارہ سربراہ حکومت نامزد کیا تھا۔
اشتہار
کویت سٹی سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق کویتی وزیر اعظم شیخ جابر المبارک الصباح نے، جو 2011ء سے سربراہ حکومت کے عہدے پر فائز تھے، گزشتہ ہفتے اپنا اور اپنی حکومت کا استعفیٰ 90 سالہ ملکی امیر شیخ صباح الاحمد الصباح کو پیش کر دیا تھا۔ اس کے بعد امیر الصباح نے آج پیر 18 نومبر کو پہلے تو اپنے بیٹے اور وزیر دفاع شیخ ناصر صباح الاحمد الصباح اور وزیر داخلہ شیخ خالد الجراح الصباح کو موجودہ عبوری حکومت میں ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا اور پھر ساتھ ہی مستعفی ہو جانے والے نگران وزیر اعظم شیخ جابر المبارک کو دوبارہ وزیر اعظم بھی نامزد کردیا۔
اس پر شیخ جابر المبارک الصباح نے اپنی نامزدگی کے محض چند ہی گھنٹے بعد ایک بار پھر یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے ہی یہ بھی ہوا تھا کہ المبارک کی حکومت کے مستعفی ہو جانے کی وجہ ملکی پارلیمان میں چند اراکین کی طرف سے وزیر داخلہ کے خلاف پیش کی جانے والی ایک تحریک عدم اعتماد بنی تھی۔
اختیارات کا مبینہ غلط استعمال
اس پارلیمانی تحریک میں وزیر داخلہ پر اختیارات کے مبینہ غلط استعمال کا الزام بھی لگایا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو گیا تھا کہ تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی عرب ریاست پر حکمران خاندان میں طاقت کی ایک باقاعدہ رسہ کشی شروع ہو چکی ہے۔ اس دوران وزیر دفاع اور وزیر داخلہ پر فوجی مقاصد کے لیے مختص کردہ سرکاری رقوم کے مبینہ غلط استعمال کے الزامات بھی لگائے گئے تھے۔
کویتی امیر شیخ صباح الاحمد الصباح کو آج ہی ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب بھی کرنا تھا۔ دریں اثناء شیخ جابر المبارک کی طرف سے عبوری طور پر سربراہ حکومت کا عہدہ دوبارہ قبول کرنے سے انکار کے بعد امیر کو اپنے کسی اور شخصیت کو نیا وزیر اعظم نامزد کرنا ہو گا۔
لیکن نئی ملکی حکومت آئندہ جو بھی بنائے، یہ بات واضح ہے کہ کویت کی تیل سے متعلق سرکاری پالیسی اس لیے نہیں بدلے گی کہ یہ حکمت عملی ملک کی سپریم پٹرولیم کونسل طے کرتی ہے۔ جہاں تک ملکی خارجہ پالیسی کا سوال ہے، تو وہ بھی اس لیے تبدیل نہیں ہو گی کہ اس کے نگران خود کویت کے امیر ہیں۔
عام انتخابات اگلے برس
کویت کا شمار خلیج کے علاقے میں امریکا کی اہم ترین اتحادی ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں کا سیاسی نظام خلیجی ریاستوں کی چھ رکنی تعاون کونسل یا جی سی سی میں مقابلتاﹰ سب سے زیادہ جمہوریت نواز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ملکی پارلیمان قانون سازی بھی کر سکتی ہے اور حکومتی وزراء سے جواب طلبی بھی کر سکتی ہے۔ کویت میں معمول کے مطابق اگلے پارلیمانی انتخابات آئندہ برس ہونا ہیں۔
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
کویت میں موجودہ سیاسی بحران اس لیے بھی باعث تشویش ہے کہ حکمران شاہی خاندان میں داخلی اختلافات اور طاقت کی جنگ اب پارلیمان سے باہر بھی دیکھی جانے لگی ہے۔ اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا، اس بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
جابر المبارک الصباح کا امیر کے نام خط
کویت کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق شیخ جابر المبارک الصباح اب دوبارہ وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے۔ انہوں نے آج ہی امیر کویت کے نام لکھے گئے اپنے ایک خط میں کہا، ''میں بطور نامزد وزیر اعظم اپنی دوبارہ نامزدگی کو مسترد کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ اس انکار کو قبول کیا جائے۔‘‘ المبارک نے اپنے انکار کی ایک وجہ اپنے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی کردار کشی کی مہم بھی بتائی۔
اس ملک میں حکمران شخصیات کے خلاف کرپشن کے الزامات کے تناظر میں اسی مہینے کویت سٹی میں ملکی پارلیمان کے باہر عوامی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے تھے اور اس رسہ کشی پر سوشل میڈیا پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
م م / ش ح (روئٹرز)
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔