کویتی پارلیمانی انتخابات میں تمام خواتین امیدواروں کی شکست
7 دسمبر 2020
کویت میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اس مرتبہ کوئی خاتون امیدوار کامیاب نہیں ہوسکی تاہم منتخب ہونے والے اراکین میں تقریبا ً نصف تعداد غیر سرکاری اپوزیشن گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔
اشتہار
کویت میں حکام کی طرف سے اتوار کے روز جاری کردہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے مطابق انتخابات میں صرف مرد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور اس بار ایوان میں کوئی بھی خاتون رکن نہیں ہوگی۔ 50 رکنی پارلیمان کے انتخابات لیے کل 326 امیدوار میدان میں تھے جن میں سے 29 خواتین تھیں تاہم اس بار کسی بھی خاتون کو کامیابی نہیں ملی۔
ایک خاتون رکن مستقل انتخاب میں کامیابی حاصل کرتی آئی تھیں تاہم اس بار انہیں بھی شکست ہاتھ لگی اور اس طرح سن 2012 کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب کویت کی پارلیمان میں کوئی بھی خاتون رکن نہیں ہوگی۔ کویت میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق یوں بھی پندرہ برس قبل ہی ملا تھا۔
پارلیمانی انتخابات کے لیے سنیچر کو ووٹ ڈالے گئے تھے اور کویت کے نئے حکمراں نواف الاحمد الصباح کے ماتحت یہ پہلے انتخابات تھے۔ گزشتہ ستمبر میں اپنے سوتیلے بڑے بھائی شیخ صباح الاحمد الصباح کی وفات کے بعد وہ ملک کے نئے امیر مقرر ہوئے تھے۔
کویت نے خلیجی ممالک میں سب سے پہلے سن 1963 میں انتخابی پارلیمان کا قیام کیا تھا۔ اس وقت سے پارلیمان کے انتخابات وقت پر ہوا کرتے ہیں تاہم ملک کا اقتدار پارلیمان کے بجائے حکمراں صباح خاندان کے ہاتھ میں ہی رہتا ہے اور کویت کا امیر ہی اپنی پسند کی انتظامیہ کا انتخاب کرتا ہے۔
ملک میں سیاسی جماعتوں پر بھی پابندی عائد ہے اور لوگ آزاد امیدوار یا پھر ذاتی حیثیت سے پارلیمان کے انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن کئی آزاد گروپ متحدہ ایجنڈے کے ساتھ انتخابی میدان میں اترتے ہیں اور اس طرح سیاسی جماعت نہ ہونے کے باجود بھی غیر سرکاری سطح پر حزب اختلاف کا ایک دھڑا پایا جاتا ہے۔ یہ اپوزیشن اتحاد الگ نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کے بجائے آزاد اور ہم خیال ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔
اپوزیشن کی کامیابی
سنیچر کو ہونے والے انتخابات میں کویت کے غیر سرکاری اپوزیشن کو ایک بڑی کامیابی ملی ہے۔ اس اتحاد نے اصلاحات کی بات کی اور بدعنوانی اور بڑے قرضوں کے خاتمے پر زور دیا تھا۔اس اتحاد نے پارلیمان کی تقریبا ًنصف نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ 50 رکنی قومی اسمبلی میں اس گروپ سے تعلق رکھنے والے یا اس سے وابستہ 24 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
اس بار کامیاب ہونے والے 30 امیدواروں کی عمریں 45 برس سے بھی کم ہیں جس نے نوجوانوں میں اصلاحات اور تبدیلی کی ایک امید اجاگر کی ہے۔ کویت میں خواتین سے متعلق سماجی و ثقافتی ادارے کی سربراہ للوا صالح ملّا کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ایک طرف جہاں خواتین کی ناکامی بڑی مایوس کن ہے وہیں پارلیمان میں نوجوانوں کی اکثریت ایک حوصلہ بخش بات بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''لوگوں نے بڑے مثبت انداز میں تبدیلی کے لیے ووٹ میں حصہ لیا اور بعض ان عناصر کو شکست دی جنہوں نے جمہوریت کی شبیہ کو مخدوش کیا اور رکن اسمبلی کی حیثیت سے اپنی طاقت کا بے جا استعمال کرتے تھے۔''
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔