کویت: امام صادق مسجد دوبارہ کھول دی گئی
26 جون 2016خلیجی ریاست کویت کی شیعہ عقیدے کی امام صادق مسجد کو ایک برس بعد تزئینِ اور تعمیر نو کی تکمیل پر دوبارہ عام نمازیوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ مسجد کی دیواروں پر لکڑی کا شان دار کام کیا گیا ہے اور اُن پر قرانی آیات کندہ ہیں۔ اسی طرح نمازیوں کے لیے مسجد کے فرش پر انتہائی عمدہ قالین بچھایا گیا ہے۔ امام صادق مسجد کویت کی سب سے قدیمی شیعہ مسجد ہے۔ اِس کی دوبارہ تعمیر اور زیبائش کا تقریباً سارا خرچہ کویت کے امیر شیخ صباح نے برداشت کیا ہے۔
گزشتہ برس اسلامی مہینے رمضان کے دوران اس مسجد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ چھبیس جون سن 2015 کے روز ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ایک جہادی نے مسجد میں نماز شروع ہونے پر ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگا کر اپنی بارودی جیکٹ کو اڑا دیا تھا۔ اِس خود کش حملے میں 27 افراد ہلاک اور 227 زخمی ہوئے تھے۔ اِس دہشت گردانہ حملے کے چند ہی منٹوں کے بعد سکیورٹی خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے کویت کے امیر شیخ صباح الامد الصباں نے مسجد پہنچ گئے تھے۔ امیرِ کویت نے زخمیوں اور لاشوں کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ میرے بیٹوں کے اعضاء اور خون ہے۔ شیعہ اور سنی آبادی کا خیال ہے کہ شیخ صباح کے کلمات نے کویت کی سنی اور شیعہ آبادی میں پیدا اتحاد اور تحمل کو بہت تقویت دی ہے۔
مسجد کی تعمیر نو کے انچارج عبدالنبی العطار کا کہنا ہے کہ یہ مسجد کویت کے بحرانی دور میں اتحاد اور یک جہتی کا نشان بن کر ابھری ہے۔ العطار کے مطابق اسلامی مہینے رمضان کی جس تاریخ کو حملہ کیا گیا تھا، اُسی پر ہلاک شدگان کی یاد میں سوگوار تقریب منعقد کی گئی تھی۔ اس تقریب میں کویت کے تقریباً تمام سنی عمائدین نے شرکت کی تھی۔ کویتی حکومت نے دہشت گردانہ حملے کے بعد ملوث افراد کو گرفتار کرے انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا۔
امام صادق مسجد کویت کے انتہائی فیشن ایبل کاروباری علاقے الصوابر میں واقع ہے۔ مسجد جس سڑک پر واقع ہے، وہاں کویتی اشرافیہ شوق و ذوق سے خریداری کے لیے پہنچتی ہے۔ یہ مسجد سن 1990 میں عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کے دور میں کی گئی فوج کشی کے دوران بھی محفوظ رہی تھی۔
کویت کی تیس لاکھ کی آبادی میں علاقائی صورت حال کے تناظر میں پریشانی کا احساس شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ خطے میں پھیلتی فرقہ وارانہ منافرت کی وجہ سے کویت کے شہریوں میں خوف پایا جاتا ہے کہ مزید خود کش حملے ہو سکتے ہیں۔ کویت یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر شفیق غرابا کا کہنا ہے کہ اُن کی ریاست فرقہ وارانہ مسائل سے قطعاً آشنا نہیں تھی اور یہاں دونوں مسالک تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن مشرق وسطیٰ کے پرتشدد تنازعات سے ریاستی عوام متاثر ہیں۔ غرابا کے مطابق مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں میں کئی بنیادی مسائل کی ایک بڑی وجہ فرقہ واریت ہے۔