کویت سے لاکھوں غیر ملکی ورکرز کو فارغ کرنے کا خدشہ
23 جولائی 2020خلیجی ریاست کویت کی پارلیمان جلد ہی ایک زیر بحث قانون کو منظور کرنے والی ہے، جس کی منظوری سے ہزاروں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کو بیدخلی کا سامنا ہو گا۔ اس مجوزہ قانونی پیش رفت کے بعد کویت میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد ستر فیصد سے کم کر کے تیس فیصد کر دی جائے گی۔
کویت کی کل آبادی تقریباً چوالیس لاکھ ہے۔ اس میں غیر ملکی افراد کا حجم ستر فیصد کے لگ بھگ ہو چکا ہے۔ ملکی پارلیمنٹ غیر ملکی افراد کی تعداد ریاستی آبادی کے تیس فیصد کے مساوی رکھنا چاہتی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق سن 2018 سے کویتی حکومت ایک پلان پر غور کر رہی ہے، جس کے تحت غیر ملکی ورکرز کی تعداد پندرہ لاکھ تک کرنا ہے۔
مجوزہ قانون کی منظوری سے لاکھوں غیر ملکی ورکرز اور دوسرے شہریوں کو بیدخلی کا سامنا ہو گا۔ اندازوں کے مطابق بیدخلی کا سامنا کرنے والوں کی تعداد پندرہ لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ’زیادتی اور استحصال‘ اب فلپائنی شہری کویت میں کام نہیں کریں گے
یہ قانون پارلیمنٹ میں رواں برس نومبر کے پارلیمانی انتخابات سے قبل باضابطہ منظوری کے لیے پیش کیا جانے والا ہے۔ بظاہر ابھی قانون منظور نہیں ہوا لیکن ان افراد پر بے یقینی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے کیونکہ اس میں پورے پورے خاندان شامل ہیں اور وہ برسوں سے کویت میں مقیم ہیں۔
بعض حلقوں کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والی کمیونٹی کا تعلق بھارت اور مصر سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان ملکوں کے سب سے زیادہ شہری وہاں روزگار کے لیے پہنچے ہوئے ہیں۔
کویتی حکام کے مطابق ریاست میں غیر ملکی ورکرز کے لیے کوٹا مقرر کرنے کی بھی منصوبہ بندی زیرِ غور ہے تا کہ مختلف ملکوں شہریوں کو روزگار کے مواقع میسر ہو سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر ملکی لاکھوں ورکرز میں نو لاکھ بیس ہزار کا تعلق مصر اور بھارت سے ہے۔
ان دونوں ملکوں کے شہریوں کو ریاست کے شدید حالات کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد شہری کورونا وبا کے بعد پیدا ہونے والے مشکل حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ گئے ہیں۔
ایک رکن پارلیمنٹ نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ ساٹھ برس یا اس سے زائد عمر کے ورکرز کے ویزوں میں توسیع نہ کی جائے۔ ابھی گزشتہ ہفتے کویتی حکام نے چالیس ہزار غیر ملکی ورکرز کے رہائشی اجازت ناموں میں توسیع کرنے کے لیے نئی درخواستیں طلب کی ہیں۔ ایسا بھی بتایا گیا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ایک بڑی تعداد میں مصری شہری کویت کو الوداع کہہ رہے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم عرب گلف اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ کے ریسرچرز رابرٹ موجیلنسکی کا کہنا ہے کہ قانون کی منظوری کے لیے بظاہر اراکین کا شور زیادہ ہے لیکن ریاستی بیوروکریسی کے کام کرنے کی رفتار خاصی سست ہے اور قانون کی منظوری کے بعد فوری طور پر اس پر عمل درآمد ہونا مشکل ہے۔
موجیلنسکی کا خیال ہے کہ قانون کے نفاذ سے کسی بڑی آبادی کی فوری معاشرتی منتقلی کا خدشہ کم ہے۔ ایسا ہی خیال کویتی پارلیمنٹ کے اسپیکر بھی ظاہر کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: مالیاتی بحران کے شکار ملک اردن کے لیے مالی مدد
دوسری جانب کویت کو گزشتہ چند برسوں سے اقتصادی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ اب کورونا کی وبا نے معاشی مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ ریاستی حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے بھی غیر ملکی ورکرز کو نکالنا چاہتی ہے تا کہ معیشت بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی شہریوں کی سماجی بہبود پر زیادہ توجہ اور بنیادی ڈھانچے کو بھی مزید مضبوط کیا جا سکے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے بھی رواں برس کویتی معیشت کے مزید سکڑنے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹام ایلینسن (ع ح/ ع ب )