کویت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کونا کے مطابق ملک کی حکومت نے اتوار کے روز اپنا استعفیٰ ولی عہد شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح کو پیش کیا اور انہوں نے اسے قبول بھی کر لیا۔
سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق ولی عہد کو وزیر اعظم شیخ احمد نواف الصباح کی جانب سے استعفے کا مکتوب موصول ہوا تھا اور انہوں نے اسے تسلیم کرتے ہوئے حکومت سے بطور نگراں انتظامیہ کے عہدے پر کام کرتے رہنے کو کہا ہے۔
گزشتہ جولائی میں ولی عہد نے شیخ احمد کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔
حکومت کا استعفی جمعرات کے روز ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد سامنے آیا ہے۔ ان انتخابات میں، بشمول اسلام پسندوں کے، حزب اختلاف کے امیدواروں کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ولی عہد کو وزیر اعظم شیخ احمد نواف الصباح کی جانب سے استعفے کا مکتوب موصول ہوا تھا اور انہوں نے اسے تسلیم کرتے ہوئے حکومت سے بطور نگراں انتظامیہ کے عہدے پر کام کرتے رہنے کو کہا ہےتصویر: Jaber Abdulkhaleg/AP Photo/picture alliance
انتخابی نتائج سے اس بات کا امکان مزید کم ہو گیا ہے کہ حکومت کی 50 رکنی اسمبلی کے ساتھ حالیہ کشیدگی کم ہو سکتی ہے اور وہ اپنے اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھا سکتی ہے۔
کویت کی حکومت کی تقرری ملک کا شاہی خاندان کرتا ہے، جبکہ پارلیمان جمہوری طرز کے انتخابات سے منتخب ہوتی ہے۔ خطے میں دیگر ممالک کی پارلیمان کے بہ نسبت کویت کی پارلیمان کو اپنی نوعیت کی زیادہ آزادی حاصل ہے۔
سیاسی تعطل کو ختم کرنے کے لیے ولی عہد نے سابقہ پارلیمان کو تحلیل کر دیا تھا۔ گزشتہ برس کے اواخر سے ملک کے حکمران امیر کے زیادہ تر فرائض ولی عہد سنبھالتے ہیں۔
پارلیمان اور حکومت کے درمیان بہت سے امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں اور اسی تعطل کے سبب اس برس مالی سال 2022/2023 کے لیے ریاستی بجٹ کی منظوری میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔