1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کویت کے یرغمالی بحران پر برطانوی حکومت کے خلاف مقدمہ

1 جولائی 2024

اس طرح کے بھی دعوے کیے گئے ہیں کہ برطانیہ نے سن 1990 کی اس فلائٹ کو خفیہ اہلکاروں کی تعیناتی کے لیے استعمال کر کے مسافروں کی جان خطرے میں ڈالی۔ البتہ برطانوی حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔

برٹش ایئرویز
برٹش ایئرویز کی فلائٹ 149 میں سوار مسافروں اور اس کے عملے کے تمام ارکان کو اس وقت جہاز سے اتار لیا گیا، جب مذکورہ فلائٹ کو کویت میں اتارا گیا، تاہم صدام حسین نے اسے یرغمال بنا لیا تھاتصویر: Bayne Stanley/Zuma/picture alliance

ایک برطانوی قانونی کمپنی نے پیر کے روز اس بات کی تصدیق کی کہ سن 1990میں کوالالمپور جانے والی برٹش ایئرویز کی جس فلائٹ کو کویت میں ایندھن بھرنے کے لیے اتارا گیا تھا، اس کے مسافروں نے برطانوی حکومت اور ایئر لائن کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی ہے۔

نائن الیون کے بعد عراق کی جنگ :عقيل ابراہيم لازم کی زندگی یکسر تبدیل

یاد رہے کہ برٹش ایئرویز کی فلائٹ 149 میں سوار مسافروں اور اس کے عملے کے تمام ارکان کو اس وقت جہاز سے اتار لیا گیا، جب مذکورہ فلائٹ کو کویت میں اتارا گیا تھا۔ دو اگست 1990 کو عراق کے صدر صدام حسین نے اپنے فوجیوں کو خلیجی ریاست کویت پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا اور مذکورہ فلائٹ کو اس حکم کے چند گھنٹے بعد ہی کویت میں اتارا گیا تھا۔

عراق : امریکی افواج کا انخلاء

367 مسافروں اور عملے کے اترنے کے بعد ہی یہ طیارہ رن وے پر ہی تباہ ہو گیا تھا۔ اس میں سوار بعض افراد نے تو چار ماہ سے زیادہ وقت تک قید میں گزارا۔

صدام حسین دو دہائیوں کے بعد بھی اردن میں مشہور کیوں؟

عراق کے اس وقت کے صدر صدام حسین نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو عراقی فوجیوں پر مغرب کے حملوں کو روکنے کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا تھا۔ یہ دو خلیجی جنگوں میں سے پہلی جنگ تھی۔

عراقی سیاسی بحران، صدارتی الیکشن غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی

مسافروں اور عملے کو 'دانستہ طور پر خطرے میں ڈالا'

برطانیہ کی معروف قانونی فرم میک کیو جیوری اینڈ پارٹنرز کا کہنا ہے کہ مذکورہ پرواز کے مسافروں اور عملے میں سے 94 نے افراد نے لندن کی ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں برطانیہ کی حکومت اور برٹش ایئرویز کو نشانہ بناتے ہوئے شہریوں کو ''جان بوجھ کر خطرے میں ڈالنے'' کا الزام لگایا گیا ہے۔

عراق کے اس وقت کے صدر صدام حسین نے اس جہاز کو یرغمال بنا لیا تھا اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو عراقی فوجیوں پر مغرب کے حملوں کو روکنے کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیاتصویر: Jacques Demarthon/dpa/picture-alliance

میک کیو جیوری اینڈ پارٹنرز نے کہا کہ ''اس آزمائش کے دوران مقدمہ دائر کرنے والے تمام افراد کو شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچا تھا، جس کے نتائج آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔''

’سعودی عرب عراق کو میدان جنگ بنانے سے احتراز کرے‘

قانونی کارروائی کرنے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ برطانوی حکومت اور برٹش ایئرویز کو پہلے ہی ''معلوم ہو چکا تھا کہ کویت پر حملہ شروع ہو چکا ہے'' تاہم اس کے باوجود انہوں نے فلائٹ کو کویت میں رکنے کی اجازت دی۔

’ایٹمی منصوبے چھوڑ کر صدام اور قذافی کا کیا حشر ہوا‘

قانونی فرم نے مزید کہا کہ ملزمان نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ پرواز اور جہاز میں سوار افراد کو ''مقبوضہ کویت میں خفیہ اسپیشل آپریشنز کرنے والی ٹیم داخل کرنے کے لیے'' استعمال کیا گیا تھا۔

منقسم عراق میں مذہبی تنوع کا ایک مثالی اسکول

اس طیارے میں سوار افراد میں سے ایک بیری مینرز نے کہا، ''ہمارے ساتھ ایک شہری کے طور پر نہیں، بلکہ سیاسی فائدے کے لیے ایک پیادے کے طور پر سلوک کیا گیا۔''

انہوں نے مزید کہا، ''برسوں کی پردہ پوشی اور بے شرمی کے انکار پر فتح سے ہمارے سیاسی اور عدالتی عمل پر اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی۔''

نومبر 2021 میں جاری ہونے والی بعض خفیہ فائلوں کے سامنے آنے سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کویت میں برطانیہ کے سفیر نے اس وقت کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی حکومت کو برٹش ایئرویز کی فلائٹ 149 کے کویت میں اترنے سے پہلے ہی عراقی حملے کی اطلاعات سے آگاہ کر دیا تھا، تاہم یہ پیغام برٹش ایئرویز تک نہیں پہنچایا گیا۔

 اس طرح کے دعوے بھی کیے گئے ہیں کہ لندن نے جہاز میں سوار افراد کو انڈر کور آپریٹو ایجنٹس کو تعینات کرنے کے لیے فلائٹ کا استعمال کیا

 اور مسافروں کو دوبارہ سوار ہونے کی اجازت دینے کے لیے ٹیک آف میں تاخیر کی، جس سے جہاز میں سوار افراد کو خطرے میں ڈالا گیا۔

لیکن برطانوی حکومت نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ برٹش ایئرویز نے بھی لاپرواہی برتنے، سازش اور پردہ پوشی کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، جان سلک)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں