کویت کے یرغمالی بحران پر برطانوی حکومت کے خلاف مقدمہ
1 جولائی 2024
اس طرح کے بھی دعوے کیے گئے ہیں کہ برطانیہ نے سن 1990 کی اس فلائٹ کو خفیہ اہلکاروں کی تعیناتی کے لیے استعمال کر کے مسافروں کی جان خطرے میں ڈالی۔ البتہ برطانوی حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔
اشتہار
ایک برطانوی قانونی کمپنی نے پیر کے روز اس بات کی تصدیق کی کہ سن 1990میں کوالالمپور جانے والی برٹش ایئرویز کی جس فلائٹ کو کویت میں ایندھن بھرنے کے لیے اتارا گیا تھا، اس کے مسافروں نے برطانوی حکومت اور ایئر لائن کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی ہے۔
یاد رہے کہ برٹش ایئرویز کی فلائٹ 149 میں سوار مسافروں اور اس کے عملے کے تمام ارکان کو اس وقت جہاز سے اتار لیا گیا، جب مذکورہ فلائٹ کو کویت میں اتارا گیا تھا۔ دو اگست 1990 کو عراق کے صدر صدام حسین نے اپنے فوجیوں کو خلیجی ریاست کویت پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا اور مذکورہ فلائٹ کو اس حکم کے چند گھنٹے بعد ہی کویت میں اتارا گیا تھا۔
عراق کے اس وقت کے صدر صدام حسین نے ان میں سے بہت سے لوگوں کو عراقی فوجیوں پر مغرب کے حملوں کو روکنے کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا تھا۔ یہ دو خلیجی جنگوں میں سے پہلی جنگ تھی۔
برطانیہ کی معروف قانونی فرم میک کیو جیوری اینڈ پارٹنرز کا کہنا ہے کہ مذکورہ پرواز کے مسافروں اور عملے میں سے 94 نے افراد نے لندن کی ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں برطانیہ کی حکومت اور برٹش ایئرویز کو نشانہ بناتے ہوئے شہریوں کو ''جان بوجھ کر خطرے میں ڈالنے'' کا الزام لگایا گیا ہے۔
میک کیو جیوری اینڈ پارٹنرز نے کہا کہ ''اس آزمائش کے دوران مقدمہ دائر کرنے والے تمام افراد کو شدید جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچا تھا، جس کے نتائج آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔''
قانونی کارروائی کرنے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ برطانوی حکومت اور برٹش ایئرویز کو پہلے ہی ''معلوم ہو چکا تھا کہ کویت پر حملہ شروع ہو چکا ہے'' تاہم اس کے باوجود انہوں نے فلائٹ کو کویت میں رکنے کی اجازت دی۔
قانونی فرم نے مزید کہا کہ ملزمان نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ پرواز اور جہاز میں سوار افراد کو ''مقبوضہ کویت میں خفیہ اسپیشل آپریشنز کرنے والی ٹیم داخل کرنے کے لیے'' استعمال کیا گیا تھا۔
اس طیارے میں سوار افراد میں سے ایک بیری مینرز نے کہا، ''ہمارے ساتھ ایک شہری کے طور پر نہیں، بلکہ سیاسی فائدے کے لیے ایک پیادے کے طور پر سلوک کیا گیا۔''
انہوں نے مزید کہا، ''برسوں کی پردہ پوشی اور بے شرمی کے انکار پر فتح سے ہمارے سیاسی اور عدالتی عمل پر اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی۔''
نومبر 2021 میں جاری ہونے والی بعض خفیہ فائلوں کے سامنے آنے سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ کویت میں برطانیہ کے سفیر نے اس وقت کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی حکومت کو برٹش ایئرویز کی فلائٹ 149 کے کویت میں اترنے سے پہلے ہی عراقی حملے کی اطلاعات سے آگاہ کر دیا تھا، تاہم یہ پیغام برٹش ایئرویز تک نہیں پہنچایا گیا۔
اس طرح کے دعوے بھی کیے گئے ہیں کہ لندن نے جہاز میں سوار افراد کو انڈر کور آپریٹو ایجنٹس کو تعینات کرنے کے لیے فلائٹ کا استعمال کیا
اور مسافروں کو دوبارہ سوار ہونے کی اجازت دینے کے لیے ٹیک آف میں تاخیر کی، جس سے جہاز میں سوار افراد کو خطرے میں ڈالا گیا۔
لیکن برطانوی حکومت نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ برٹش ایئرویز نے بھی لاپرواہی برتنے، سازش اور پردہ پوشی کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، جان سلک)
ایران عراق جنگ، چالیس برس بیت گئے
ایران اور عراق کے مابین ہوئی جنگ مشرق وسطیٰ کا خونریز ترین تنازعہ تھا۔ آٹھ سالہ اس طویل جنگ میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے گئے تھے۔ اس تنازعے کی وجہ سے اس نے خطے میں فرقہ ورانہ تقسیم میں بھی اضافہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
علاقائی تنازعہ
بائیس ستمبر سن 1980 کو عراقی آمر صدام حسین نے ایرانی حدود میں فوجی دستے روانہ کیے تھے، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ دو شیعہ اکثریتی ممالک میں یہ جنگ ایک علاقائی تنازعے کی وجہ سے شروع ہوئی تھی۔
تصویر: defapress
الجزائر معاہدہ
اس جنگ سے پانچ برس قبل سن 1975 میں اس وقت کے نائب صدر صدام حسین اور ایران کے شاہ نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں سرحدی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تاہم بغداد حکومت نے ایران پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے آبنائے ہرمز میں واقع تین جزائر پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ ان جزائر پر ایران اور متحدہ عرب امارات دونوں ہی اپنا حق جتاتے تھے۔
تصویر: Gemeinfrei
اہم آبی ذریعہ
سترہ ستمبر سن 1980 کو عراقی حکومت نے الجزائر معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سو کلو میٹر طویل اہم ایشائی دریا شط العرب پر اپنا حق جتا دیا تھا۔ گلف کا یہ اہم دریا دجلہ اور فرات سے مل کر بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. al-Jurani
شہروں اور بندگارہوں پر بمباری
عراقی صدر صدام حسین نے ایرانی ہوائی اڈوں پر بمباری کی، جن میں تہران کا ایئر پورٹ بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی عراقی فورسز نے ایرانی فوجی تنصیبات اور آئل ریفائنریوں کو بھی نشانہ بنایا۔ جنگ کے پہلے ہفتے میں عراقی فورسز کو مزاحمت نہیں ملی اور اس نے قصر شیریں اور مہران سمیت ایران کی جنوب مشرقی پورٹ خرمشھر پر قبضہ کر لیا۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں شط العرب سمندر سے جا ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
مشترکہ دشمن
اس جنگ میں گلف ممالک نے عراق کا ساتھ دیا۔ بالخصوص سعودی عرب اور کویت کو ڈر تھا کہ ایرانی اسلامی انقلاب مشرق وسطیٰ کے تمام شیعہ اکثریتی علاقوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک بھی عراق کے ساتھ تھے اور انہوں نے صدام حسین کو اسلحہ فروخت کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone
ایران فورسز کی جوابی کارروائی
ایرانی فورسز کی طرف سے جوابی حملہ عراق کے لیے ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اس کارروائی میں ایرانی فوج نے خرمشھر پورٹ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ تب عراق نے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے اپنی افواج واپس بلا لیں۔ تاہم ایران نے جنگ بندی تسلیم نہ کی اور عراقی شہروں پر بمباری شروع کر دی۔ اپریل سن 1984 دونوں ممالک کی افواج نے شہروں پر حملے کیے۔ یوں دونوں ممالک کے تیس شہر شدید متاثر ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
اس جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کیے۔ سن 1984میں ایران نے یہ الزام عائد کیا، جسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا۔ سن 1988 میں بھی عراقی فورسز نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ جون 1987 میں عراق نے ایرانی شہر سردشت میں زہریلی گیس سے حملہ کیا جبکہ مارچ 1988 میں کرد علاقے میں واقع حلبجة میں عراقی شہریوں کو نشانہ بنایا۔
تصویر: Fred Ernst/AP/picture-alliance
فائر بندی
اٹھارہ جولائی 1988 کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پیش کردہ فائربندی کی تجویز قبول کی۔ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی درست تعداد کے بارے میں مصدقہ اطلاع نہیں ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق کم ازکم ساڑھے چھ لاکھ افراد اس تنازعے کے سبب ہلاک ہوئے۔ دونوں ممالک نے بیس اگست سن 1988 کو جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: Sassan Moayedi
نیا باب
سن 2003 میں جب امریکی فوج نے عراقی آمر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تو مشرق وسطیٰ میں ایک نیا باب شروع ہوا۔ تب سے ایران اور عراق کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب دونوں ممالک نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و سماجی معاملات میں بھی باہمی تعلقات بہتر بنا چکے ہیں۔