جرمن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نوجوان کوے سماجی اور جسمانی ’ہنرمندی‘ میں چمپنزی کے برابر ہوتے ہیں۔ مطالعاتی رپورٹ کے مطابق کوے نہایت اعلیٰ دماغ کے حامل ہوتے ہیں۔
تصویر: Remy de la Mauviniere/AP Photo/picture alliance
اشتہار
سائنسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گو کہ کوے ساخت کے اعتبار سے ممالیہ جانوروں سے مختلف دماغ کے حامل ہوتے ہیں، تاہم سوچنے کے اعتبار سے ان کی صلاحیت غیرمعمولی ہے۔ اس مطالعاتی رپورٹ کے لیے آٹھ نوجوان کووں کو وہی ٹیسٹ دیے گئے، جو بن مانسوں اور لنگوروں کو دیے جاتے ہیں، جن کے ذریعے ان کی جسمانی اور سماجی ذہانت جانچی جاتی ہے۔ سائنٹیفک رپورٹس نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس جانچ میں کوؤں کو ذہانت کے اعتبار سے چمپنزی کے 'انتہائی قریب‘ پایا گیا۔
کوؤں کی دماغی صلاحیتوں پر کی جانے والی اس بڑی تحقیق کے ذریعے کوؤں اور بندروں کی ہنرمندی کی جانچ کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں 'سائنس کے عظیم معموں‘ میں سے ایک کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پرندوں اور ممالیہ کے اذہان کیسے اور کیوں مختلف ہیں۔ سائئنس دانوں کا کہنا ہے کہ تین سو ملین برس قبل ان دونوں کے اذہان متوازی طور پر ارتقائی عمل سے گزرنا شروع ہوئے۔
جانچ کی کیسے گئی؟
عام کوؤں کو جنوبی جرمن شہر میونخ کے قریب ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ برائے آرنیتھولوجی میں پالا گیا۔ اس کے بعد انہیں ایک بڑے پنجرہ نما جگہ پر چھوڑ دیا گیا اور پھر پی سی ٹی بی تجربات سے گزارا گیا۔ یہ وہ تجربات ہیں، جو بندروں کی ذہانت کی جانچ کے لیے کیے جاتے ہیں۔
ایک جانچ میں تین متحرک کوؤں میں سے ایک میں خوراک کا ٹکڑا چھپا کر کوے سے جانا گیا کہ خوراک کس میں ہے۔ اس تجربے میں بن مانس انگلی کے اشارے سے بتاتے ہیں جب کہ کوؤں کو چونچ کے ذریعے بتانا تھا۔
اسی طرح یادداشت کی صلاحیت سے متعلق بھی یہ جانچا گیا کہ کوے کس طرح چیزیں یاد رکھتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق کوے دیکھ کر یا اشارہ کر کے دوسروں کے ساتھ ابلاغ کرتے ہیں۔
جانوروں کی سننے کی غیرمعمولی صلاحتیں
ارتقا کے سفر میں انسانوں نے اپنی سماعت کی حسیات کھو دیں۔ ہم ہاتھیوں کی طرح نچلے تعدد کی آواز نہیں سن سکتے اور چمگادڑوں کی طرح کی اونچی فریکوئنسی کی سماعت سے عاری ہوتے ہیں مگر ہم نے اپنی سماعت کو بہتر بنانا ضرور سیکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
خرگوش اور کانوں کا گھماؤ
خرگوش اپنے کانوں کو 270 درجے تک گھما کر سننے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کانوں کی حرکت اسے شکار بننے سے بچاتی ہے، مگر خرگوش کے کان رویے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کھڑے کان بتاتے ہیں کہ وہ توجہ سے سن رہے ہیں اور جب ایک کان کھڑا ہو اور ایک بیٹھا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ خرگوش توجہ دیے بغیر سن رہا ہے۔ دونوں کان پشت پر جڑی حالت میں گرے ہوں، تو سکون کی علامت ہے۔ اسی حالت میں علیحدہ کان خوف کا اشارہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
بلی اور کتا نہایت متوجہ ہیں
کتے انسان سے زیادہ بلند تعدد کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ اسی لیے آپ کا کتا اس وقت بھی ردعمل دکھا سکتا ہے، جب آپ کو وہاں کچھ نظر نہ آئے۔ کتے اپنے مالک اور اجنبیوں کے قدموں کی چاپ میں فرق تک کر سکتے ہیں۔ بلیاں سماعت میں اس سے بھی زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ کتوں کے پاس کانوں کے 18 پٹھے ہوتے ہیں جب کہ بلیوں میں یہ تعداد 30 ہے۔ بلیاں اپنے کانوں کو 180 درجے گھما بھی سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Faber
چمگادڑوں کا سننے کے لیے الٹراسانک موجوں کا استعمال
چمگادڑ گمک کے ذریعے رات کے دوران پرواز کا راستہ طے کرتی ہیں۔ یہ اپنے منہ سے الٹراسونک یا بالائے صوت موجیں خارج کرتی ہیں، جو پلٹ کر ان تک آتی ہیں۔ اس ذریعے سے چمگادڑ آواز کی موجوں سے کسی شے کے حجم اور مقام کا تعین کرتی ہیں اور گھپ اندھیرے میں بھی خوراک تلاش کر لیتی ہیں۔ چمگادڑوں کے پاس کانوں کے 20 پٹھے ہوتے ہیں، جن کے ذریعے یہ گمک کو سننے کے لیے اپنے کانوں کی جہت تبدیل کر لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Mary Evans Picture Library/J. Daniel
عالم حیوانات کا بہترین سامع مگر کان نہیں ہیں
عالم حیوانات میں سب سے بہترین سماعت ویکس موتھ ہے، جسے ارتقا نے چمگادڑوں سے بچنا سکھا دیا ہے۔ ان کے کان نہیں ہیں، مگر ان کی سننے کی صلاحیت انتہائی حساس ہے۔ یہ انسانوں کے مقابلے میں ایک سو پچاس گنا بہتر سن سکتے ہیں جب کہ چمگادڑوں کے مقابلے میں 100 ہرٹز زیادہ تعدد کی آوازیں بھی سن سکتے ہیں۔
بھنورے، جھینگر اور کیڑے اپنے شکاریوں کی جانچ کے لیے الٹراسونک موجوں کو سماعت کرتے ہیں۔ شکاریوں سے فاصلہ بنانے کے لیے یہ آڑا ترچھا یا دائروں میں اڑنے کا ہنر استعمال کرتے ہیں۔ بعض جھینگر اور بھنورے مخصوص آواز پیدا کر کے اپنے شکاری کو ڈرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Schultz
وہیل، چلتی پھرتی آبدوزیں
آب دوزوں کے سفر کے لیے وہی تکنیک استعمال کی جاتی ہے، جو چمگادڑ یا وہیل مچھلیاں گھپ اندھیرے میں سفر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اندھیرے میں وہیل مچھلیاں آواز کی موجیں پیدا کر کے اور گمک سن کے اپنی خوراک بھی تلاش کرتی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہیل مچھلیاں آواز کے ذریعے اپنے آس پاس کے ماحول کا سہہ جہتی خاکہ جان لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Poelzer
ڈولفن جبڑوں سے سنتی ہیں
ڈولفن کے کان ہوتے ہیں، مگر وہ سمندر میں سفر کے لیے چمگادڑوں کی طرز کا نظام استعمال کرتی ہیں۔ ان کی جبیں سے صوتی لہریں نکلتی ہیں جب کہ پلٹ کر آنے والی ان لہروں کو ڈولفن کے دانت اور جبڑے وصول کرتے ہیں۔ سننے کے لیے کبھی کبھی کان درکار نہیں ہوتے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Peolzer
ہاتھی بادلوں کی گڑگڑاہٹ محسوس کر سکتے ہیں
اپنے بڑے بڑے کانوں کے ذریعے ہاتھی بارش سے قبل جمع ہونے والے بادلوں کی آواز تک محسوس کر لیتے ہیں۔ ہاتھی انفرا صوتی موجوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ اپنے پیروں کی حرکت کی وجہ سے زمین پر پیدا ہونے والی ارتعاش تک کو محسوس کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. Reichelt
الو جیسے فطرت کا نگران کیمرہ
الوؤں کے پاس فقط رات میں دیکھنے یا اپنے سر کو تین سو ساٹھ درجے گھمانے ہی کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ ان کی سماعت بھی غیرمعمولی ہوتی ہے۔ ان کے کان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اڑتے ہوئے یہ ایک کان سے اوپر سے آنے والے صوتی موجیں محسوس کر سکتے ہیں اور ایک کان سے نیچے سے آتی آوازیں۔ اس پر ان کی رات میں دیکھ لینے کی صلاحیت کا مطلب ہے کہ ان کا شکار بچ نہیں سکتا۔
تصویر: DW
نابینا افراد چمگادڑوں کی طرح سننے کی مشق کر سکتے ہیں
بعض نابینا افراد گمک کو محسوس کر کے اپنے ماحول کو جانچ سکتے ہیں۔ بعض افراد اپنے منہ سے آواز نکال کر اس کی بازگشت سن لیتے ہیں جب کہ بعض دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فقط گمک سن کر اپنے ماحول کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
10 تصاویر1 | 10
سائنسدانوں کے مطابق چار ماہ کی عمر کے نوجوان کوؤں نے چھ مختلف سماجی اور جسمانی ٹاسکس کی انجام دہی میں مکمل 'ذہنی صلاحیتوں‘ کا مظاہرہ کیا۔ جرمنی کی اوسنا بروک یونیورسٹی کی پروفیسر اور اس پروجیکٹ کی قائد زیمونے پِکا اور ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کی مِریم زیما نے بتایا کہ چار ماہ کی عمر تک کوے خاصے خودمختار ہو چکے ہوتے ہیں۔ ''اس عمر میں وہ نئے چینلجز سے نمٹنے کے لیے مکمل تیار ہو چکے ہوتے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''کوؤں اور گریٹ ایپس کے درمیان قابل توجہ مماثلت پائی جاتی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے آرنیتھولوجی وہ ادارہ ہے، جس سے وابستہ سائنس دان کونراڈ لورینس نوبل انعام جیتے تھے۔