1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا افغانستان ميں ’طالبانائزيشن‘ کا خطرہ ہے؟

28 ستمبر 2012

افغانستان ميں ايک لڑکے سے ناجائز تعلقات رکھنے پر ايک لڑکی کو کوڑے لگانے پر افغانستان کے اندر اور بيرون ملک تنقيد جاری ہے۔

تصویر: AFP/Getty Images

سولہ سالہ صابرہ کو افغانستان کے جنوبی صوبے غزنی کے ضلع جگوری ميں کسی باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بغير تين مولویوں نے 100 کوڑے مارنے کی سزا سنا دی۔ يہ 16 ستمبر کی بات ہے۔ پير 24 ستمبر کو سينکڑوں طلبا اور طالبات نے کابل ميں طالبان اور مقامی مذہبی رہنماؤں کی ’صحرائی عدالتوں‘ کے خلاف مظاہرہ کيا۔ اُنہوں نے حکومت سے مطالبہ کيا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ ميں لينے کے ان واقعات کی روک تھام کرے۔ اس سے اگلے روز افغان حکام نے کوڑے مارنے کے اس واقعے کے حوالے سے پانچ افراد کو حراست ميں لينے کا اعلان کيا اور کہا گيا کہ اصل ذمہ داروں کا سراغ لگايا جائے گا۔  

افغانستان ميں دہشت گردی کی تربيت کا کيمپتصویر: picture-alliance/ dpa

صابرہ کی بہن شفيقہ نے بتايا:   ’’کسی نے بھی کوڑے مارنے کی سزا پر عمل کی ہمت نہيں کی حتٰی کہ لوکل پوليس انچارج نے کہا کہ اُس کی ذمہ داری پر سزا دی جائے۔ اس کے بعد اُس کے ايک ماتحت نے کوڑے لگائے۔‘‘

شفيقہ نے مزيد کہا کہ اُس نے عدالتی حکام سے رجوع کيا ليکن وہاں کوئی شنوائی نہ ہوئی۔

صابرہ سے ہمدردی ظاہر کرنے والی رکن پارليمنٹ شاہ گل رضائی نے کہا کہ ايک پارليمانی تحقيقاتی وفد ضلع جگوری بھيجا جائے گا۔ ايمنیسٹی انٹر نيشنل نے افغان پارليمنٹ کے اس فيصلے کی تعريف کی۔ ليکن اُس نے افغان حکام پر تنقيد کی کہ اُنہوں نے ماضی ميں اس قسم کے واقعات پر کوئی کارروائی نہيں کی۔ ايمنيسٹی انٹر نيشنل کی حوريہ مصدق نے کہا کہ افغانستان ميں عورتوں پر تشدد پر کوئی سزا نہ دينا بہت عام ہے۔ افغان آئين ميں عورتوں اور مردوں کے مساوی حقوق ہيں ليکن عملی طور پر عورتوں سے امتيازی سلوک کيا جاتا ہے: ’’پچھلے سال افغانستان ميں اقوام متحدہ کے مشن نے ايک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق بہت کم ہی افغان جج اور وکلائے استغاثہ مساوی حقوق کے اس قانون سے واقف ہيں۔ عورتوں سے امتيازی سلوک کا دائرہ خاندان اور عدالتوں سے لے کر اعلٰی ترين حکومتی حلقوں تک پھيلا ہوا ہے۔‘‘ 

کابل ميں خواتين پر تشدد کے خلاف مظاہرہتصویر: DW

غور طلب بات يہ ہے کہ کوڑوں کی سزا کا يہ واقعہ جگوری ضلع ميں پيش آيا جہاں طالبان فعال نہيں اور جہاں ان کے حامی بھی نہيں ہيں۔ حکومت کو اس ضلع کے انتظام اور داخلی سلامتی پر بڑی حد تک کنٹرول حاصل ہے۔

حوريہ نے کہا کہ يہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کو طالبان کی واپسی کا خطرہ ہے اور وہ خود کو شريعت کا پابند ظاہر کرنا چاہتے ہيں۔

A. Hakim, sas / H. Spross, mm

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں