وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے ليے مستند ڈیٹا کی اہمیت پر زور دیا ہے لیکن ماہرین اور سیاستدانوں کا خیال ہے کہ حکومتی رویے کے باعث يہ ممکن نہیں۔
اشتہار
پاکستان میں کووڈ انيس کے مریضوں کی حقيقی تعداد کے حوالے سے حالیہ دنوں میں شک و شبے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ چند اخبارات کی رپورٹوں نے بھی ايسے تاثرات کو مزيد طول دی۔ کچھ رپورٹوں ميں یہ دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ کچھ ہفتوں میں کراچی کے جناح اسپتال میں تین سو سے زائد افراد یا تو ہسپتال پہنچنے کے بعد دم توڑ گئے یا وہ پہلے ہی سے مردہ حالت میں لائے گئے۔ اور يہ کہ ايسے افراد کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کیا گیا، جس سبب حتمی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی موت کی وجہ کیا تھی۔ فلاحی تنظيم ایدھی فاونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے ايک بیان نے بھی ان شکوک و شہبات کو بڑھایا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی تنظیم نے کچھ ہفتوں میں تین سو سے زائد افراد کو غسل دیا۔
انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق وزیر اعظم نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان خبروں اور فیصل ایدھی کے بیان کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ کورونا سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کے ليے مستند ڈیٹا بہت اہم ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے مستند ڈیٹا مرتب کرنے کی ہدایت بھی دی۔
دوسری جانب ناقدین کے خیال میں مصدقہ معلومات جمع کرنے کے ليے کئی ايسے اقدامات کرنے پڑیں گے، جن میں حکومت ممکنہ طور پر سنجیدہ نہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹرز کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، جسے پی ایم اے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کا خیال ہے کہ کئی ایسے فوری اقدامات ہیں، جن کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ پی ایم اے سے وابستہ ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''کراچی کے ہسپتالوں میں غیر معمولی نمبر میں لاشیں آنے سے لوگوں میں اضطراب تو ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے پتہ چلے گا کہ مرنے والا کیسے مرا؟ اس کے ليے آپ کو پوسٹ مارٹم کے ليے عملہ چاہیے۔ جس کا آپ پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں، اس کا پتا نہیں کہ وہ کووڈ انيس سے مرا ہے یا نہیں۔ اس کے تعين کے ليے آپ کو تربیت یافتہ طبی عملہ چاہیے۔ حکومت يا تو فوراً تربیت یافتہ اسٹاف لائے یا پھر ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو تربیت دے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالغفور شورو کا مزید کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ کی سہولیات کو بھی بڑھایا جانا جائے۔ ''ہم بہت محدود پیمانے پر ٹیسٹنگ کر رہے ہیں، جس سبب ہمیں متاثرين کی درست تعداد پتا نہیں چل رہی۔ اس کے علاوہ ملک کے ہسپتالوں میں طبی عملے کی بھی شديد کمی ہے، جسے پورا کرنا ضروری ہے۔‘‘
چند ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت شروع ہی سے وبا کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔ پلاننگ کمیشن کے سابق سیکریٹری اور ماہر شماریات فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ہے۔''وفاقی حکومت نے سندھ کو چار ہزار ناکارہ کٹس فراہم کيں۔ ٹیسٹنگ کی صورت حال یہ ہے کہ تفتان سے ایک مرحلے پر بارہ سو افراد کے قریب سندھ پہنچے، ان میں سے اکثر کو ٹیسٹ ہی نہیں کیا گیا اور سکھر پہنچنے پر ان میں سے بہت کے ٹيسٹ مثبت آئے۔ وفاقی حکومت ٹیسٹنگ بڑھانے کی کوشش نہیں کر رہی، تو ایسے میں کس طرح آپ مستند ڈیٹا جمع کر سکتے ہیں؟‘‘
فضل اللہ قریشی نے تجویز پیش کی کہ ٹیسٹنگ کو تیز کرنے کے ليے موبائل لیبارٹریز قائم کی جانی چاہييں۔ ''ہمارے پاس جراثیم کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین بھی نہیں ہیں۔ فوراً ایسے ماہرین بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیٹا جمع کرنے کے ليے افرادی قوت بھی بڑھانی پڑے گی۔‘‘
ورلڈ بینک کے مختلف منصوبوں سے وابستہ رہنے والے عامر حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس مسئلے پر سختی بھی دکھانی پڑے گی۔ ''کورونا کی خوف کی وجہ سے لوگ خود آگے آ کر نہیں کہہ رہے کہ انہیں کوئی مرض ہے۔ اس کے علاوہ تبلیغی جماعت کے لوگ بھی ٹیسٹ کرانا نہیں چاہتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انہیں پھر پندرہ دن ایک جگہ رکنا پڑے گا۔ تو ٹیسٹنگ کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے اور حاليہ ہفتوں میں ہسپتالوں میں مرنے والے افراد کا مکمل پتہ لگایا جائے کہ ان کی موت کی وجہ کیا ہے۔‘‘
لاک ڈاؤن میں نرمی یا سختی؟
02:00
دريں اثناء حزب اختلاف کی جماعتيں حکومت پر خوب تنقید کر رہی ہيں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ ملک میں کم ٹیسٹنگ کی ایک وجہ ٹیسٹنگ کٹس کا غائب ہونا ہے۔ ''حکومت کے لوگوں پر الزام ہے کہ انہوں نے ٹیسٹنگ کٹس اور ماسکس کو اسمگل کیا۔ پہلے حکومت یہ ڈیٹا جمع کرے کے کتنی کٹس اور ماسک اسمگل کيے گئے اور کس نے کيے۔‘‘ مشاہداللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ نہ حکومت کورونا سے نمٹنے میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی ڈیٹا جمع کرنے میں۔ ''حکومت وبا پر توجہ دینے کے بجائے سندھ حکومت، اپوزیشن اور میڈیا سے لڑ رہی ہے۔ آپ ایسے بحران پر قابو نہیں پا سکتے۔ مجھے تو آگے تباہی ہی تباہی نظر آرہی ہے کیونکہ حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے آنے والے دنوں میں کووڈ انيس کے کیسز بہت بڑھیں گے۔‘‘
اس کے برعکس حکمران جماعت پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ وہ کورونا کے مسئلے کو سنجیدگی سے ليا جا رہا ہے اور ڈیٹا کو بھی احسن طریقے سے جمع کیا جائے گا۔ کے پی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''کورونا کے حوالے سے معلومات جمع کرنے کے ليے کے پی سمیت پورے ملک میں سینٹرز بنائے جا چکے ہیں۔ اب ان سے اطلاعات لے کر ہم ڈیٹا مرتب کریں گے۔ وزیر اعظم جو کہتے ہیں کر کے دکھاتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ ''وہ یہ دیکھیں کہ ہم نے ملک بھر میں قرنطینہ مراکز بنائے، لاک ڈاؤن نافذ کیا، کمانڈ اینڈ کنڑول سینٹر بنایا اور اس کے علاوہ بندشوں سے متاثرہ لاکھوں لوگوں کی مالی مدد بھی کی۔ کیا یہ سب اقدامات ہماری سنجیدگی کا مظاہرہ نہيں کرتے؟‘‘
'لاہور ایسا تو پہلے کبھی نہ تھا'
لذیذ پکوان، سیاحتی مقامات، بازاروں اور پارکوں میں لوگوں کے ہجوم والے شہر، لاہور کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے باعث شہر کی گلیاں، بازار اور دیگر سیاحتی مقامات سنسان پڑ گئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
پنجاب میں کورونا کے سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد لاہور میں
لاہور میں جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے، سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے ، سیاحتی مقامات اور دفاتر بند ہیں ۔ لاہور کے مینار پاکستان کا یہ سبزہ زار ملک بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا تھا، اب یہ ایک سنسان سی جگہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ محکمہ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پنجاب میں کورونا کے قرنطینہ میں موجود زائرین کے بعد پنجاب میں کورونا کے سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد لاہور میں ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
پولیس کے ناکے
شہریوں کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے پولیس متحرک ہے، جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں، لاہور پولیس کے مطابق لاک ڈاؤن کے بعد سے ان ناکوں پر اب تک پچپن ہزار افراد کو روکا گیا ہے۔ ایک ہزار پانچ سو بتیس گاڑیاں اورموٹرسائیکلیں دفع ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی پر بند کر دی گئی ہیں، غیر ضروری سفر کرنے والے دو ہزار سے زائد مسافروں سے شورٹی بانڈز لیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
فوج کی گاڑیوں کا فلیگ مارچ
شہر میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج طلب کر لی گئی ہے، وقفے وقفے کے ساتھ پولیس اور فوج کی گاڑیوں کا شہر کی مختلف سڑکوں پر فلیگ مارچ ہو رہا ہے۔ لاہور میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پیر کے روز ہونے والے فلیگ مارچ میں پاک آرمی، رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں نے حصہ لیا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جی پی او چوک
لاہور میں اگرچہ لاک ڈاون جزوی ہے اور شہریوں کی محدود تعداد کو ادویات اور اشیائے خردونوش خریدنے کی مخصوص اوقات میں اجازت ہے، لیکن لاہور کے مال روڈ پر واقع جی پی او چوک کا یہ علاقہ جو عام طور پر بہت بارونق ہوتا ہے، اب یہاں دوکانیں اور دفاتر بند ہیں۔ یہ علاقہ کبھی کبھی تو ویرانے کا سا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور کا فیصل چوک
لاہور کا فیصل چوک بھی روایتی رونقوں سے محروم ہے، واپڈا ہاوس کی یہ بلند و بالا عمارت بھی افسردگی کا احساس لیے ہوئے ہے، اس سے ملحقہ پٹرول پمپ پر اکا دکا گاڑی دکھائی دیتی ہے، واپڈا ؛ہاوس کے آس پاس کے علاقوں میں الحمرا آرٹس سنٹر بند ہونے سے فنون لطیفہ کی یہاں تمام سرگرمیاں ٹھپ ہیں، سینما اور تھیٹر بھی بند ہیں اور یہاں کے فائیو سٹار ہوٹل میں بھی کوئی گاہک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
کورونا کا خوف
اندرون شہر اور لاہور کے بعض دوسرے علاقوں میں چھوٹے گھروں میں بند ہو کر رہنا آسان کام نہیں ہے، انارکلی سے ملحقہ علاقے نیلا گنبد میں ایک شہری بچوں کے ساتھ کچھ دیر کے لیے باہر نکلا ہے۔ لیکن کورونا کے خوف سے اس نے بچوں کو حفاظتی ماسک پہنا رکھے ہیں، اب شہر میں زیادہ تر لوگ اسی طرح ہی نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ریلوے اسٹیشن بھی ویران
ٹرینین بند ہو جانے کے بعد تو لاہور کا ریلوے اسٹیشن بھی ویران ہو گیا ہے، یہاں پر اب ٹھیلے والے، قلی، مسافر اور ریلوے اہلکاروں سمیت کوئی نظر نہیں آ رہا، ریلوے اسٹیشن کے اندر مختلف پلیٹ فارموں پر بھی ہو کا عالم ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ڈیلی ویجز ملازمین کے لیے ایک امدادی سکیم کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
گھر سے کیوں نکلے تھے؟
شہر میں آنے والے جانے والے تمام راستوں پر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ فوجی جوان بھی موجود ہیں۔ اس تصویر میں لاہور کے راوی پل پر شاہدرہ کے شہری اپنے گھروں کو جانے کے لئے موجود ہیں، ان کو پولیس کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ اپنے گھر سے کیوں نکلے تھے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
تمام ریسٹورنٹس بند
زندہ دلوں کے شہر لاہور میں اس وقت تمام ریسٹورنٹس بند ہیں، البتہ کھانا آرڈر پر گھر بھجوانے کی سہولت موجود ہے، میڈیکل سٹورز کے علاوہ کھانے پینے کی دوکانیں کھلی ہوئی ہیں، اس تصویر میں مزنگ کے علاقے میں ایک بزرگ سبزی خرید رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور پریس کلب کو بھی بند کر دیا گیا
لاہور میں متعدد صحافیوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہو جانے کے بعد لاہور پریس کلب کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ حکومتی شخصیات نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر ویڈیو پریس کانفرنسز شروع کر دی ہیں، زیادہ تر صحافتی امور ڈیجیٹل طریقے سے سرانجام دیے جا رہے ہیں۔ میڈیا کے کارکنوں کی کم سے کم تعداد کو باری باری دفتری امور کی انجام دہی کے لیے بلایا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
عوامی آگاہی مہم
لاہور پولیس کے اہلکاروں کی طرف سے شہر کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو گھر سے غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلنے کی تلقین پر مشتمل اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب کی طرف سے بھی کورونا سے بچاو کے لیے عوامی آگاہی کے لیے موٹرسائیکلوں اور رکشوں پر مہم چلائی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جمعے کی نماز میں شہریوں کی محدود تعداد کی شرکت
پاکستان کے کئی علمائے کرام کی طرح پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے شہریوں کو مساجد میں بڑے اجتماعات منعقد نہ کرنے کی اپیل کی ہے، لاہور کی بادشاہی مسجد میں بھی جمعے کی نماز میں شہریوں کی محدود تعداد نے شرکت کی تھی، تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کے کورونا ٹیسٹ بھی پازیٹیو آئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
شہریوں میں بے چینی
لاہور میں آٹے کی قلت اور کرفیو کے ممکنہ نفاذ کی خبریں بعض اوقات شہریوں میں بے چینی کا باعث بنتی ہیں اور گراسری سٹورزسمیت متعدد جگہوں پر رش لگ جاتا ہے، پولیس اہلکار ایسے رش کو کلیئر کرانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
گوردواروں، مندروں اور کلیساؤں میں بھی اجتماعات پر پابندی
لاہور کے تمام گوردواروں، مندروں اور کلیساؤں میں بھی اجتماعات پر پابندی عائد کی جا چکی ہے، لاہور کے مال روڈ پر واقع اس کتھیڈرل چرچ کے ملحقہ سکول کو بند کر دیا گیا ہے اور چرچ کی عمارت کے آس پاس کوئی شخص بھی دکھائی نہیں دے رہا۔