پاکستان ميں ان دنوں کورونا وائرس تيزی سے پھيل رہا ہے۔ تجزيہ کاروں اورسماجی امور کے ماہرين کا کہنا ہے کہ وبا سے نمٹنے ميں وفاقی حکومت کی ناقص کارکردگی اور عوام ميں سازشی نظريات پر اعتماد کی وجہ سے صورتحال بگڑی۔
اشتہار
پاکستانی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق چوبيس جون کو ملک ميں نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ايک لاکھ نوے ہزار کے قريب ہے۔ تين ہزار نو سو کے قريب افراد اس بيماری کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔ اندازے کے مطابق اس ماہ کے اختتام تک متاثرين کی تعداد تين لاکھ اور جولائی کے اواخر يا اگست کے اوائل تک ايک ملين تک پہنچنے کے امکانات ہيں۔ عالمی ادارہ صحت نے جون کے وسط ميں خبردار کيا تھا کہ پاکستان ميں انفيکشن ريٹ 22.6 ہو گيا ہے۔ صرف جون ہی کے مہينے ميں نئے انفيکشن يوميہ ايک ہزار سے بڑھ کر اوسطاً چھ ہزار تک پہنچ گئے ہيں۔
امپیريل کالج لندن اور يونيورسٹی آف واشنگٹن نے سائنسی ماڈلنگ کی روشنی ميں يہ خدشہ بھی ظاہر کيا ہے کہ پاکستان ميں وائرس کے متاثرين کی حقيقی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے تين سے دس گنا زيادہ ہو سکتی ہے۔
حکومتی حکمت عملی پر سواليہ نشان
اس گھمبير صورت حال کے باوجود حکومت پاکستان نے ملک گير سطح پر لاک ڈاؤن ميں نرمياں متعارف کرائيں اور غير ملکی سياحت کے ليے بھی دروازے کھول ديے۔ مارچ ميں جب پاکستان ميں متاثرين کی تعداد ڈھائی سو کے لگ بھگ تھی، وزير اعظم عمران خان نے اپنی ايک تقرير ميں نئے کورونا وائرس کا موازنہ ايک عام سے نزلے زکام سے کيا تھا۔ سترہ مارچ کو ٹيلی وژن پر قوم سے اپنے خطاب ميں عمران خان نے دعویٰ کيا تھا کہ ستانوے فيصد مريض خود ہی صحت ياب ہو جائيں گے۔ انہوں نے اسی وقت يہ کہہ کر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی شروع کر دی تھی کہ پاکستان کی پچيس فيصد عوام خط غربت سے نيچے زندگی بسر کرتی ہے اور ايسے حالات ميں پابندياں ممکن نہيں۔
پاکستان ميں کورونا وائرس کب اور کہاں سے پھيلا؟
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز کی تصديق چھبيس فروری کو ہوئی تھی۔ مارچ ميں جب متاثرين کی تعداد کافی محدود تھی حکومت نے ايران سے آنے والے شيعہ زائرين کو بلوچستان سے داخل ہونے کی اجازت دی۔ ان زائرين کے لیے قرنطينہ کا ناقص انتظام تھا، اکثر جگہوں پر قرنطینہ کا کوسی بندوبست ہی نہیں تھا، جس کے سبب انفيکشن پھيلا۔ پھر تبليغی اجتماعات کو بھی نہيں روکا گيا، جس سے صورت حال مزيد بگڑی۔ بالآخر يکم اپريل سے ملک گير سطح پر لاک ڈاؤن نافذ کيا گيا، جو نو مئی تک رہا۔
عيد الفطر سے قبل تاجر برادری اور مذہبی حلقوں کے دباؤ ميں حکومت نے اکثريتی پابندياں ختم کر ديں اور وزير اعظم خان نے لوگوں کو خود احتياطی تدابير اپنانے کو کہا۔ عوام نے ايسا نہ کيا اور عيد کے موقع پر باہر نکل کر خريداری کی۔ نتيجتاً کيسز مسلسل بڑھتے رہے اور پھر وزير اعظم نے لوگوں کو ہی اس صورتحال کا قصور وار ٹھہرايا۔
کیسے اندازہ لگایا جائے کہ وبا پھیلے گی یا کم ہو گی؟
03:32
جھٹلانے کا رجحان اور سازشی نظريات پر يقين
گيلپ پاکستان کے ايک تازہ مطالعے کے مطابق پاکستان ميں پچپن فيصد عوام کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پيش کيا گيا ہے۔ مارکيٹ ريسرچ کے ايک اور ادارے 'اپسوس‘ کے مطابق صرف تين فيصد پاکستانی شہری کورونا وائرس کے حوالے سے کسی شک و شبے ميں مبتلا نہيں۔ ماہرين حکومت پر الزام عائد کرتے ہيں کہ وہ غير حقيقی معلومات کے پھیلاؤ اور بے بنياد دعوں کو کچلنے ميں ناکام رہی۔ حکومت کی ناقص کارکردگی اور عوام ميں حکومت پر اعتماد کی کمی کی وجہ سے بھی سازشی نظريات نے اپنی جگہ بنائی۔
پاکستانی تجزيہ نگار اور سينئر صحافی اويس توہيد کے مطابق سازشی نظريات ہميشہ ہی سے پاکستانی معاشرے کا حصہ رہے ہيں، چاہے موجودہ عالمی وبا کا معاملہ ہو يا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا۔ ان کے بقول پاکستانيوں کی اکثريت نے 'حقيقت کو جھٹلانے‘ ميں پناہ تلاش کی۔ ''پاکستان ميں مذہب اور سياست دونوں نے وبا کو بگاڑنے ميں کردار ادا کيا۔‘‘ اويس توہيد نے مزيد کہا، ''کورونا وائرس مشرق سے زيادہ مغرب ميں جان ليوا ثابت ہوا ہے، يہ سفيد فام لوگوں کو زيادہ ہلاک کر تا ہے اور 'پاکستاں ميں لوگوں کی قوت مدافعت مضبوط ہے‘ وغيرہ جيسے نظریات نے وائرس کے پھيلاؤ ميں اہم کردار ادا کيا۔‘‘ سول سوسائٹی کا يہ بھی الزام ہے کہ حکومت نے وبا کے باوجود مذہبی حلقوں کو ناراض نہ کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی۔
اوکاڑہ يونيورسٹی کے وائس چانسلر اور سماجيات کے پروفيسر محمد ذکريہ ذاکر نے ڈی ڈبليو اردو سے بات چيت ميں کہا کہ ملک ميں سائنس کا کلچر نہيں پيدا کيا گيا اور اسی ليے لوگ معاملات کو سائنسی نظر سے ديکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہيں۔ ''اگر کسی کو کورونا وائرس ہو جائے، تو اکثر لوگ کہتے ہيں کہ متعلقہ شخص گناہ گار ہے اور اس پر خدا کا عذاب نازل ہوا ہے۔‘‘
پروفيسر ذاکر کے مطابق مذہبی قدامت پسندی، قصے کہانيوں پر يقين اور تعليم کی کمی چند ايسی اہم وجوہات ہيں جن کی وجہ سے لوگ سازشی نظريات پر زيادہ يقين رکھتے ہيں اور اپنے سامنے موجود حقائق کو جھٹلاتے ہيں۔ انہوں نے مزيد کہا کہ صرف کم اور درميانی آمدنی والے طبقے اس سے متاثر نہيں بلکہ متوسط طبقوں ميں بھی ايسا ہی رجحان ديکھا گيا ہے۔
واضح رہے کہ اپريل ميں معروف مذہبی شخصيت مولانا طارق جميل نے اپنے ايک بيان ميں کہا تھا کہ کورونا وائرس بد اخلاق يا بد کردار عورتوں کی وجہ سے پھيلا ہے۔
جولائی اور اگست انتہائی خطرناک مہينے
عالمی ادارہ صحت نے پاکستان سے ملک گير سطح پر دو ہفتوں کے ليے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ملک ميں ڈاکٹروں اور اپوزيشن سياسی جماعتوں کا بھی يہی مطالبہ ہے مگر اسلام آباد حکومت اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنائی ہوئے ہے۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔