1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيمپوں ميں مہاجرين کے ليے خصوصی گيم

عاصم سليم25 دسمبر 2015

اسٹيفن مولہوئزر ايک گيم ڈيولپر ہيں اور انہوں نے اپنی کمپنی اسٹيفن گيمز کی بنياد 2003ء ميں رکھی تھی۔ وہ عوام کی مدد سےمہاجرين کے ليے ايک خصوصی گيم کے پانچ ہزار ڈبے مختلف مہاجر کيمپوں ميں مفت تقسيم کرنا چاہتے ہيں۔

تصویر: Ingrid Faber

اسٹيفن مولہوئزر کی خواہش تھی کہ وہ مہاجرين کے ليے ايسے آسان گيم تيار کر سکيں جنہيں وہ فارغ وقت ميں جرمن زبان نہ آنے کے باوجود باآسانی کھيل سکيں۔ اپنے منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے ليے وہ عوام سے فنڈنگ کی توقع رکھتے ہيں۔ ڈی ڈبليو کے ساتھ ان کا خصوصی انٹرويو:۔

ڈوئچے ويلے : آپ نے مہاجرين کے ليے ’فائيو‘ نامی ايک گيم تيار کی ہے۔ اس کھيل ميں کيا خاص بات ہے، جو اسے دوسرے گيمز سے مختلف بناتی ہے؟

اسٹيفن مولہوئزر : عام طور پر مہاجر کيمپوں ميں گيمز دستیاب نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھار لوگ گيم عطيہ کر ديتے ہيں۔ ہم ايک مرتبہ جرمن شہر ہان ميں واقع ايک مہاجر کيمپ ميں گئے تھے اور وہاں سوائے ’پارچيسی‘ نامی ايک گيم کے، کچھ اور نہيں تھا۔ ہم نے پناہ گزينوں کو چند گيمز عطيہ کر ديے تاہم پتہ يہ چلا کہ زبان نہ آنے کے سبب وہ لوگ کھيل کے قوانين نہ پڑھ سکے اوو وہ گيم جوں کے توں پڑے رہے۔ ميرے ليے اہم بات يہی ہے کہ لوگ گيم کے قواعد و ضوابط پڑھ سکيں اور گيم چھوٹے ہوں، جو لوگ تھوڑی جگہ پر، مثال کے طور پر بستر يا پلنگ پر بھی بيٹھ کر کھيل سکيں۔

تصویر: Ingrid Faber

ڈوئچے ويلے : بہت سے لوگ بے انتہا مشکلات سے گزر کر ور تھک ہار کر کيمپوں تک پہنچتے ہيں اور پھر انہيں پرہجوم عارضی رہائش گاہوں ميں رہنا پڑتا ہے۔ ايسے ميں گيم بھلا کس کام کے؟

اسٹيفن مولہوئزر : زیادہ تر تارکین وطن دن کا بيشتر حصہ پناہ گزين کيمپوں ميں انتظار کرتے ہوئے يا فارغ بيٹھ کر گزارتے ہيں۔ وہ اپنے ماضی کے تجربات کی بناء پر صدمے کا شکار ہوتے ہيں۔ ايسے ميں کوئی بھی ايسی چيز جو ان کی توجہ کا مرکز بنے، ان کے معمول ميں کچھ تبديلی لا سکتی ہے۔ ہم نے ديکھا کہ کھیلوں کو پسند کيا گيا۔ ديکھتے ہی ديکھتے پناہ گزين ہنس کھيل رہے ہوتے ہيں اور کچھ نيا کرنے پر مطمئن نظر آتے ہيں۔

ڈوئچے ويلے : کيا آپ سمجھتے ہيں کہ ايسے گيمز کی مدد سے لوگ ايک دوسرے کی ثقافت کو سمجھ پائيں گے اور ايک دوسرے کے قريب آئيں گے؟

اسٹيفن مولہوئزر : ہاں بالکل۔ مختلف ممالک سے جرمنے آنے والے تارکین وطن جب یہاں پہنچتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں بھی ایسی چیزیں موجود ہیں جن سے وہ پہلے ہی واقف ہیں۔ مثلاﹰ کھیل، ایسے ایبسٹریکٹ گیمز کے بنیادی اصول عام طور پر ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں، جیسے مقررہ ہدف تک سب سے پہلے پہنچنا، يا پھر دوڑ ميں آگے نکلنا يا پھر کسی چيز کی زيادہ تعداد حاصل کرنا۔ يہ وہ چيز ہے جو دنيا بھر ميں عرصہ دراز سے ہوتی چلی آئی ہے۔ ان چیزوں سے ان مہاجرین کے اندر ایک تعلق کا احساس پیدا ہوتا ہے جو کافی اہميت کا حامل ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں