’کُرس جیسے دوست ہوں تو میرکل کو دشمنوں کی کیا ضرورت‘
عاطف توقیر
18 جنوری 2018
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے کہا ہے کہ وہ ان کی حکومت کی نیت دیکھیں اور انتہائی دائیں بازو کے حکومتی اتحاد کو نظرانداز کریں۔ دونوں رہنماؤں نے مستقبل میں مل کر کام کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
اشتہار
آسٹریا میں سباستیان کُرس صرف 31 برس کی عمر میں آسٹریا کے چانسلر بن گئے ہیں اور یہ عمر وہ ہے کہ انہوں نے قانون کے شعبے کی جامعاتی ڈگری بھی ابھی مکمل نہیں کی۔ اس سے واضح ہے کہ اپنے عزائم کو تکمیل کرنے یا اپنے وعدوں کو ثابت کرنے میں ابھی کُرس کو ایک طویل عرصہ درکار ہے۔
آسٹریا کے چانسلر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیرملکی دورے پر جرمن دارالحکومت برلن پہنچنے والے کُرس سے ایسے اشارے تاہم ملتے ہیں کہ وہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے سنجیدہ ہیں۔ آسٹریا میں کسی ’سپراسٹار‘ کی طرح سیاسی افق پر ابھرنے والے کُرس کی یہی خوداعتمادی تھی، جو انہیں اتنا جلدی چانسلر کے عہدے تک لے آئی۔
یہ سال پناہ کے متلاشیوں کا سال رہا
اس سے قبل کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ پناہ کی تلاش میں نہیں نکلے جتنے سال 2015ء کے دوران۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے جرمنی اور یورپ کا رخ کیا۔ سال رواں کے دوران دل ہلا دینے والی کچھ تصاویر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
منزل مقصود
یہ شامی نوجوانوں کا ایک گروپ ہے، جو اپنے سفر کا خطرناک ترین مرحلہ عبور کر تے ہوئے یونان پہنچا ہے۔ یورپی یونین میں داخل ہو جانے کے باوجود یہ ابھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہ لوگ مغربی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔ اس سال کے دوران زیادہ تر افراد نے جرمنی اور سویڈن کا رخ کیا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
بحیرہٴ روم کے ذریعے
بحیرہٴ روم کے ذریعے یورپ تک پہنچنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے برابر ہے۔ اس سفر کے دوران متعدد کشتیاں غرقاب ہو چکی ہیں۔ یہ شامی باپ اور اس کے بچے خوش قسمت تھے کہ انہیں جزیرے لیسبوس کے پاس یونانی مچھیروں کی ایک کشتی نے ڈوبنے سے بچا لیا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
دنیا کو ہلا دینے والی تصویر
تین سالہ ایلان کردی اپنے اس سفر کے دوران دنیا سے ہی ہجرت کر گیا۔ وہ اپنے بھائی اور والدہ کے ساتھ بحیرہٴ ایجیئن میں یونانی جزیرے کوس پہنچنے کی کوشش میں ڈوب گیا۔ اس کی لاش ترک علاقے بودرم کے ایک ساحل سے ملی تھی۔ یہ تصویر کچھ ہی دیر میں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر جاری ہوئی اور اس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
تصویر: Reuters/Stringer
پناہ گزین اور سیاح
پناہ کے متلاشیوں کی ایک بڑی تعداد یونان کے کوس جزیرے پر پہنچتی ہے۔ یہ علاقہ ترکی سے بہت ہی قریب ہے۔ یہاں کے ساحلوں پر عام طور پر سیاح ہوتے ہیں لیکن وقتاً فوقتاً اب مہاجرین کے مختلف گروپ بھی یہاں پہنچتے ہیں، جیسے پاکستانی شہریوں کا یہ گروپ، جسے یونان کی امدادی تنظیموں نے محفوظ طریقے سے ساحل پر پہنچایا ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
افراتفری
کوس پہنچ کر بہت سارے پناہ گزینوں کی زندگی ایک طرح سے رک سی جاتی ہے۔ یہ لوگ اندراج کے بعد ہی جزیرے سے باہر جا سکتے ہیں۔ موسم گرما میں یہاں حالات اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے، جب حکام نے پناہ گزینوں کو ایک اسٹیڈیم میں بند کر دیا تھا۔ اس دوران انہیں رجسٹریشن کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا تھا اور شدید گرمی کے باوجود انہیں پانی بھی مہیا نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
یورپی مسائل
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر موجود پولیس کسی کو بھی آگے بڑھنے نہیں دے رہی تھی اور ان مجبور افراد میں اپنے والدین سے بچھڑنے والے بلکتے ہوئے بچے بھی شامل تھے۔ اس تصویر کو یونیسیف کی جانب سے’’سال کی اہم ترین تصویر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تصویر مہاجرین کے معاملے میں ایک کشمکش میں مبتلا یورپ کی عکاسی کر رہی ہے
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
کوئی پرسان حال نہیں
موسم سرما کے دوران ہنگری انتظامیہ پناہ گزینوں کے لیے اقدامات کرنے اور نسلی امتیاز کے واقعات کو روکنے میں مکمل طور پر نا اہل ثابت ہوئی۔ دارالحکومت بوڈاپیسٹ کا ریلوے اسٹیشن پناہ گزینوں کا مسکن بن گیا کیونکہ حکومت نے ان کے آگے سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے بعد بہت سے لوگ پیدل ہی جرمنی کی جانب چل پڑے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
جرمنی اور آسٹریا کا اہم اعلان
پانچ ستمبر کی رات جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور آسٹریا کے ان کے ہم منصب ویرنر فیمان کی جانب سے مشترکہ طور پر اپنی اپنی سرحدیں کھولنے کا اعلان سامنے آیا۔ اس کے ساتھ ہی پناہ گزینوں کا پیچیدہ افسر شاہی طریقہٴ کار کے بغیر سفر کرنا آسان ہو گیا۔ ان دنوں کے دوران کئی خصوصی بسین اور ٹرینیں میونخ اور ویانا پہنچتی رہیں۔
تصویر: picture alliance/landov/A. Zavallis
پناہ گزین ’خوش آمدید‘
چانسلر انگیلا میرکل کے اس اعلان کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین جرمنی پہنچ گئے۔ ستمبر کے پہلے اختتام ہفتہ پر میونخ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تقریباً بیس ہزار رہی۔ اس موقع پر میونخ کے ریلوے اسٹیشن پر امدادی کارکنوں نے آنے والے افراد کا پرجوش انداز میں استقبال کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Stollarz
چانسلر میرکل کے ساتھ سیلفی
چانسلر میرکل کو مہاجرین سے متعلق ان کی پالیسی پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تاہم وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔ ان کا ایک بیان ’’ہم اس مسئلے پر قابو پا لیں گے‘‘ ایک نعرہ سا بن گیا۔ جرمنی میں ایک مہاجر کیمپ کے دورے کے موقع پر ایک پناہ گزین کی جانب سے چانسلر کے ساتھ یہ سیلفی تصویر کافی مقبول ہوئی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اپنی کہانی تصویر کی زبانی
ستمبر کے آخر میں جرمن پولیس کی جانب سے ایک انتہائی جذباتی تصویر جاری کی گئی۔ یہ ایک پناہ گزین بچی کی تخلیق تھی، جو اس نے پاساؤ نامی شہر کی پولیس کو بطور تحفہ پیش کی تھی۔ اس تصویر میں اس نے اس سفر کے دوران کی مشکلات بیان کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ وہ جرمنی پہنچنے پر کتنی خوش ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bundespolizei
سلسلہ ابھی جاری ہے
اکتوبر کے آخر تک تقریباً ساڑھے سات لاکھ افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ بلقان ممالک نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔ وہ صرف شامی، عراقی اور افغانی باشندوں کو آگے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے کچھ پناہ گزینوں نے احتجاج کے طور پر اپنے لب سی لیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
12 تصاویر1 | 12
کُرس عوامیت پسند جذبات کےحامل ہیں اور اور ایسے بہت سے معاملات پر عملی اقدامات اٹھا سکتے ہیں، جو کسی دوسرے سیاست دان کے لیے کرنا آسان نہیں۔ ایک طرف آسٹریا میں کُرس انتہائی دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی (FPÖ) کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں اور دوسری جانب فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ اور اس جماعت کی قائد مارین لے پین سے بھی ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ ادھر جرمنی میں چانسلر میرکل انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی کے ساتھ حکومت سازی کے خیال کوئی ہی مسترد کر چکی ہیں۔ میرکل کہہ چکی ہیں کہ ایسے کسی اتحاد کو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
جرمنی میں چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچئین ڈیموکریٹک یونین CDU کو گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی تو ملی، تاہم ماضی کے مقابلے میں اس کی کارکردگی اتنی بری تھی کہ حکومت سازی کے لیے اسے اپنی حریف جماعت ایس پی ڈی سے اتحاد کرنا پڑ رہا ہے۔ سی ڈی یو کے متعدد رہنماؤں کا کہنا ہے کہ میرکل جماعت کو قدامت پسند روایتی رنگ سے دور لے گئی ہیں، جس کا فائدہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو ہوا ہے اور وہ حالیہ انتخابات میں پہلی مرتبہ اتنی زیادہ نشستیں جینے میں کامیاب ہوئی ہے۔
تین یورپی ممالک کی بارڈر کنٹرول مشقیں
01:33
مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ قریب سو دن سے حکومت سازی کی کوششوں میں مصروف میرکل اب سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہیں، تاہم جرمنی میں سیاسی بے یقینی کچھ کم بیشی کے ساتھ بدستور موجود ہے۔ دوسری جانب چانسلر کُرس نے برلن میں میرکل سے ملاقات کے بعد کہا کہ وہ اپنے ملک ایک ’مستحکم‘ حکومت پر انتہائی ’خوش‘ ہیں اور چاہتے ہیں کہ جرمنی میں بھی سیاسی استحکام واپس لوٹے۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اگرچہ ملاقات کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان دونوں میں ’کتنا کچھ مشترک‘ ہے، تاہم مہاجرین کے موضوع سے لے کر یورپی انضمام تک، قریب تمام ہی اہم موضوعات پر دونوں رہنماؤں کی سوچ بالکل مختلف ہے البتہ ایک قدر دونوں میں مشترک ضرور ہے اور وہ یہ کہ دونوں ایک ’مستحکم‘ حکومت چاہتے ہیں۔